Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link
Posts

سورہ النساء ۔ رکوع 4 | Surah Nisa Ruku 4 Read Online Translation Transliteration

سورہ النساء ۔ رکوع 4۔ مع اردو ترجمہ و تفسیر | Surah Nisa Ruku 4 Read Online Translation Transliteration  in Urdu

Surah Nisa (سورہ النساء) is a significant chapter of the Quran, and Ruku 4 holds special importance within it. You can now read Ruku 4 of Surah Nisa online, complete with translation and transliteration, to understand its profound meanings and teachings. Additionally, a PDF download is available for those who wish to delve deeper into the study of this chapter. Explore the wisdom and guidance contained in Surah Nisa today.
سورہ النساء ۔ رکوع 4 | Surah Nisa Ruku 4 Read Online PDF Download Translation Transliteration

يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ ٱلصَّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُباً إِلاَّ عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُواْ وَإِنْ كُنْتُمْ مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَآءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيداً طَيِّباً فَٱمْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً ﴿٤٣﴾ 
اے ایمان والو! نہ نزدیک جاؤ نماز کے بحالتِ بے ہوشی یہاں تک کہ جان سکو وہ جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنت میں مگر یہ کہ راہ عبور کرنے والے ہو یہاں تک غسل کرلو اور اگر ہو بیمار یا سفر میں یا آیا ہو کوئی تمہارا پیشاب پاخانہ سے یا جماع کیا ہو عورتوں سے پس نہ پاؤ پانی تو قصد کرو زمین پاک کا پس مَس کرو اپنے منہ کا اور ہاتھوں کا تحقیق اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے ﴿٤٣﴾
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيباً مِّنَ ٱلْكِتَابِ يَشْتَرُونَ ٱلضَّلاَلَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّواْ ٱلسَّبِيلَ ﴿٤٤﴾
 کیا تم نہیں دیکھتے ان کو جو دیئے گئے ایک حصہ کتاب سے خرید کرتے پھرتے ہیں گمراہی کو اور چاہتے ہیں کہ تم بھی رستہ بھٹک جاؤ ﴿٤٤﴾
وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِأَعْدَائِكُمْ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَلِيّاً وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ نَصِيراً ﴿٤٥﴾
 اور اللہ خوب جانتا ہے تمہارے دشمنوں کو اور کافی ہے اللہ ولی اور کافی ہے اللہ مددگار ﴿٤٥﴾
مِّنَ ٱلَّذِينَ هَادُواْ يُحَرِّفُونَ ٱلْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَٱسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيّاً بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْناً فِى ٱلدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَٱسْمَعْ وَٱنْظُرْنَا لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلـٰكِنْ لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلاً ﴿٤٦﴾
 یہودیوں میں سے بعض ایسے ہیں جو بدل دیتے ہیں لفظوں کو اپنی جگہ سے اور کہتے ہیں ہم نے سُنا اور نافرمانی کی اور سن نہ سننے پائے اور راعنا موڑتے ہوئے اپنی زبانوں کو اور طعنہ زنی کرتے ہوئے دین میں اور اگر وہ کہتے ہم نے سُنا اور اطاعت کی اور سُن اور نظر کر ہم پر تو خوب تھا ان کے لیے اور بہتر لیکن ان پر اللہ کی لعنت ہے بوجہ ان کے کفر کے پس وہ ایمان نہیں لاتے مگر کم ﴿٤٦﴾
يَا أَيُّهَآ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَابَ آمِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهاً فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَآ أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّآ أَصْحَابَ ٱلسَّبْتِ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ مَفْعُولاً ﴿٤٧﴾
 اے وہ لوگ جو دیئے گئے کتاب ایمان لاؤ ساتھ اس کے جو ہم نے نازل کی کہ تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو تمہارے پاس ہے پہلے اس سے کہ مٹادیں ہم چہروں کو کہ کردیں ان کو پیٹھ کی طرف یا ان پر لعنت کریں جس طرح ہم نے لعنت کی اصحاب سبت کو اور اللہ کا امر ہوکر رہتا ہے ﴿٤٧﴾
إِنَّ ٱللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰ إِثْماً عَظِيماً ﴿٤٨﴾
 تحقیق اللہ نہیں بخشتا شرک کو اور بخشتا ہے وہ جو علاوہ وہ اس کے جسے چاہے اور جو شرک کرے ساتھ اللہ کے تحقیق اس نے افتریٰ باندھا گناہ عظیم کا ﴿٤٨﴾
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنْفُسَهُمْ بَلِ ٱللَّهُ يُزَكِّى مَن يَشَآءُ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاً ﴿٤٩﴾ 
کیا تم نہیں دیکھتے طرف ان کے جو پاکیزدگی بیان کرتے ہیں اپنی بلکہ اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہے اورنہ ظلم کئے جائیں گے کچھ بھی ﴿٤٩﴾
انظُرْ كَيفَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَكَفَىٰ بِهِ إِثْماً مُّبِيناً ﴿٥٠﴾
 دیکھئے کیسے افتریٰ باندھتے ہیں اللہ پر جھُوٹ کے اور کافی ہے یہ گناہ صریح ﴿٥٠﴾
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيباً مِّنَ ٱلْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِٱلْجِبْتِ وَٱلطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَؤُلاءِ أَهْدَىٰ مِنَ ٱلَّذِينَ آمَنُواْ سَبِيلاً ﴿٥١﴾
 کیا نہیں دیکھتے ان لوگوں کو جو دیئے گئے حصہ کتاب سے ایمان رکھتے ہیں جبت اور طاغوت پر اور کہتے ہیں کافروں کے متعلق کہ یہ لوگ زیادہ پانے والے ہیں بہ نسبت مومنوں کے راہِ ہدایت کو ﴿٥١﴾
أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً ﴿٥٢﴾
 ایسے لوگوں کو لعنت کی ہے اللہ نے اور جس کو لعنت کرے اللہ تو ہر گز نہ پاؤ گے اس کا کوئی مددگار ﴿٥٢﴾
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ ٱلْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُؤْتُونَ ٱلنَّاسَ نَقِيراً ﴿٥٣﴾
 کیا ان کا حصہ ہے سلطنت سے؟ پھر تو وہ نہ دیں گے لوگوں کو نقیر برابر بھی ﴿٥٣﴾

سورہ النساء ۔ رکوع 4۔ مع اردو ترجمہ و تفسیر 

وَأَنْتُمْ سُكَارَىٰ : تفسیر مجمع البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہاں بے ہوشی سے مراد نیند کی غشی ہے یعنی اچھی طرح ہوشیار ہو کر نماز پڑھو اورتفسیر برہان مٰں متعدد احادیث ائمہ طاہرین علیہم السلام سے اسی مضمون کی وارد ہیں۔ 

زمخشری سے ربیع الابرار میں مروی ہے کہ خداوندکریم نے شراب کی حرمت کے متعق قران مجید مٰں تین ایات نازل فرمائیں پہلی دفعہ نازل فرمایا۔ 

يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الۡخَمۡرِ  :  تو بعض مسلمان پیتے رہے اورحضرت عمر نے بھی ایک دفعہ  پیا اورنشہ کے عالم میں  عبدالرحمن بن عوف کا سر پھوڑ دیا اورپھر بدر کے مقتولین پر بیٹھ کر نوحہ پڑھنے لگا اوراسود بن یعفر کے اشعار پڑھے جب یہ خبر حضرت رسالتمابؐ‏‏  تک پہنچی تو غضباک ہو کر روانہ ہوئے کہ آپؐ کی ردا مبارک زمین پر خط دے رہی تھی اوریہ آیت نازل ہوئی اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ الی قولہ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ جب آپؐ نے پڑھی تو حضرت عمر نےکہاکہ بس آئندہ میں نہ  پیؤں  گا اورتفسیر کبیر جلد ۳ میں فخرالدین رازی نے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ افضل ترین صحابہ کی عبدا لرحمن بن عوف نے دعوت کی اورشراب اس زمانہ میں جائزتھا۔ اس نے بھی طعام کے ساتھ شراب تیار کیا چنانچہ سب نے خوب کھایا اورپیا جب حالت نشہ میں آئے تو ادھر مغرب کا وقت آپہنچا تو انہوں نے ایک کو اگے کھڑا کردیا تاکہ امامت کے فرائض انجام دے تو اس نےقرات میں سورہ کافرون کی تلاوت کی اوراس طرح پڑھی اعبد ماتعبدون وانتم عابدون مااعبد تب یہ ایت اتری کہ نشہ کی حالت مٰں نماز پڑھی جائے چنانچہ اس کے بعد نمازوں کے اوقات میں شراب نہ پیتے تھے اورعشا ءکی نماز کے بعد شراب پی لیا کرتے تھے کیونکہ نماز صبح تک اس کا نشہ اتر جاتا تھا اس واقعہ کے بعد مطلقا شراب کی حرمت کاحکم ایا سبحان اللہ جب رہبر ایسے ہوں تو مقتدیوں کا کیا مقام ہوگا۔ 

تفسیر برہان میں بروایت عیاشی امام موسی کاظم علیہ السلام سے حلبی نے نقل کیا ہے کہ میں نے آپ سے اسی آیت کے متعلق دریافت کیا تو اپ نے فرمایا اس بے ہوشی سے مراد نیند کی بے ہوفشی ہے یعنی جب تمہیں نیند ارہی ہواورتم اونگھ رہے ہو اورتمہیں پتہ نہ ہو کہ رکوع سجود تکبیر وغیرہ میں کیا کچھ کہہ رہے ہو تو ایسی حالت میں نماز نہ پڑھی کرو اوراس سے وہ معنی ہرگز مراد نہیں جو لوگ کہتے ہیں کیونکہ مومن شراب نہیں پیاکرتا اورنہ مومن نشہ دار چیز استعمال کرتا ہے اوراسی کی تائید حضرت عائشہ سے نقل شدہ ایک روایت بھی کرتے ہے اپ فرماتی ہی ںخہ حضور نے فرمایا جب تم اونگھ رہے ہو تو نماز چھو ڑ کرچلے جایا کرو کیونکہ شاید بے شعوری کے عالم میں اپنے لئے بدعاہی نہ کررہے ہو بہرکیف اہلبیت عصمت سے وارد شدہ روایات میں اس جگہ بے ہوشی سے مراد نیند کی بے ہوشی ہے لیکن چونکہ دوسرے مسلمانوں کے نظریہ کے ماتحت صحابہ کرام دور اول میں خوب شراب کے عادی تھے اورشراب کی منع کے بعد بھی نوش فرمالیا کرتے تھے لہذاوہکہتے ہی خہ اس جگہ شراب کا نشہ مراد ہے چنانچہ فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں کہاہے کہ تمام مفسرین کا اجماع اہے کہا س جگہ نشہ سے مراد شراب کا نشہ ہے

ولاجنبا الا عابری سبیل: عینی جنبی حالت مٰں بھی نماز ادا نہ کرو مگر یہ کہ مسافر ہو اورپانی دستیاب نہ ہو تو پھر تیمم کرکے نماز ادا کی جاسکتی ہے اوربعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہالصلوة سے مراد موضع الصلوة سے یعنی مسجد پس معنی یہ ہو گا کہ نماز کےلئے حالت بے ہوشی میں بھی مسجد مٰں نہجاو اورنہ جنبی حالت میں مساجد میں جاو مگر صرف عبور کے لئے یعنی ایک

(بیمار یا سفر میں یا ایا ہو کوئی تمہارا پیشاب پاخانہ سے یا جماع کیا ہو عورتوں سے پس نہ پاو پانی تو قصد کرو زمین پاک کا پس مس کرو اپنے منہ کا اورہاتھوں کا تحقیق اللہ معاف )

جانب سے دوسری جانب کی طرف عبور کرنے کےلئے مسجد سے جاسکتا ہے اورمسجد میں ٹھہر نہیں سکتا اورامام محمد باقر علیہ السلام سے بھی ایسا ہی مروی ہے تفسیر برہان میں بروایت کافی امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ اپ سے دریافت کیا گیا کیا جنبی ادمی مسجد میں بیٹھ سکتاہے اپ نے فرمایا نہیں البتہ مسجد سے گذر سکتا ہے لیکن مسجد الحرام اورمسجد النبی سے گزر بھی نہیں سکتا

سورہ النساء ۔ رکوع 4۔ تیمم کا بیان


اوجاءاحد منکم: اس مقام پر اوبمعنی واو کے ہے ایت کا مقصد یہ ہے کہ اگر انسان بیمار ہو اورپانی کا استعمال اسکےلئے باعث ضررونقصان ہو یا انسان سفر پر ہواورپانی دستیاب نہ ہوتا ہو اورہر دوصورتوں میں پیشاب پاخانہ پھر چکا ہو یا عورت سے ہمبستر ہو چکا ہو تو نماز کے لئے مٹی سے تیمم کرے

پیشاب پاخانہ پھر نا اسباب وضو میں سے ہے کہاں ایک سبب کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے یعنی تمہیں وضوءکرنا ہو اورپانی کے استعمال سے بیماری یا نایابی کی مجبوری ہو تو وضو کے بدلے تیمم کرلیا کرو اورسباب غسل میں سے لمس فساءکو ذکر کیا گیا ہے اورمراد یہ ہے کہ اگر تمہیں غسل کرنا ہواورپانی کے استعمال سے بوجہ بیماری یا اس کینایابی کی معذوری ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرلیا کرو

نیز پانی کے نہ ملنے کی قید سفر کے ساتھ لگائی گئی ہے کیونکہ عام طور پر سفروں میں ہی پانی کی نایا بی کا شکوہ ہوا کرتا ہے ورنہ اگر گھر میں ہوتے ہوئے بھی کبھی ایسا اتفاق ہو جائے تو وہاں بھی تیمم قئمقام وضو ءیا غسل کے ہوگا

صَعِيداً طَيِّباً: سے صعید کا معنی مطلق روئے زمین ہے اورطیب کا معنی پاک ہے بنابریں مطلقا روئے زمین جو پاک ہوسے تیمم کرنا جائز ہے بشر طیکہ ایسی چیز نہ ہو جس پر استحالہ کی وجہ سے زمین کا نام صادق نہ اتا ہو جسے سیمنٹ چونا پختہ اینٹ راکھ کوئلہ اورشورہ وغیرہ

فامسحوابوجوھکم: دونوں ہاتھو ں کو ملا کر اگر انگوٹھی چھلا وغیرہ ہو تو اتار کر اکٹھے زمین پر مارے اورپھر اپس میں ہاتھوں کو چھا ڑ کر پہلے منہ کا مسح کرے بایں طور کہ دونوں ہاتھوں کو ملالے اورانگوٹے پھیلالے اورپیشانی کے اوپر سر کے بال اگنے کی جگہ پر رکھے کہ انگوٹے پیشانی کی دونوں طرفوں کو گھیر لیں پھر دونوں ہاتھوں کو نیچے کی طرف سرکائے اس طرح کہ ہتھلیاں بلکہ ہاتھوں کا باطنی حصہ پیشانی کے چمڑے سے جدا نہ ہوجائے پس ابروں تک ہاتھوں کی پشت کاکلائی سے لے کر انگلیوں کی سرے تک مسح کرے اورپھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی پشت کا انگلیوں کے سرے تک مسح کرے اورہاتھوں کےلئے وہ پہلی منہ والی ضرب کافی ہے زمین پر دوسری ضرب کی ضررورت نہیں نیز وضواور

غسل کے تیمم میں کوئی فرق نہیں بعض علماءتیمم بدلے غسل کے اگر ہو تو دوسری ضرب ہاتھوں کے لئےکہتے ہیں یعنی سابقہ طریق سے پہلی ضرب سے منہ اورہاتھوں کا مسح خرے اورپھر ایک ضرب زمین پر مار کر صرف ہاتھوں کا مسح کرے اوربعض فرماتے ہیں خہ اس احتیاط میں بھی وضواورغسل برابر ہیں لہذا ہر تیمم میں اس طریق کو اختیار کرے تو خوب ہے

مسئلہ تیمم کر لینے کے بعد حکم ی طہارت حاصل ہوجاتی ہے پس انسان تمام وہ کام انجام دے سکتا ہے جو طہارت سے مشروط تھے لیکن پانی دستیاب ہونے کے بعد یا ضرر رفع ہونے ے بعد تیمم خود بخود باطل ہوجائے گا اوراس سے حاصل شدہ حکمی طہارت باطل ہوجائے گی

مسئلہ پانی نہ ملنے یا پانی کے استعمال میں ضرر کی صورتوں کے علاوہ پانی مہنگا ملنے کی صورت میں جبکہ اس کی قیمت ادانہ کر سکتا ہو یا پانی موجود ہو لیکن وہاں جاکر لانے میں عزت جان مال وغیرہ کا خطرہ ہو یا پانی نکالنے کا الہ موجود نہ ہو یا یہ کہ پانی استعمال کرسکتا ہو لیکن وضو یا غسل کرنے سے نماز فریضہ کے قضاء ہوجونے کا ڈرہو اس قسم کی صورتوں میں بھی وضوءیا غسل کے بدلہ میں تیمم کرنے کا حکم ہے

تنبیہ

تیمم کی ایت وضوءمیں پاوں کے مسح کو خوب ثابت کرتے ہے کیونکہ پانی دستیاب ہونے یا بے ضرر ہونے کی صورت میں جہاں وضوءکا حکم ہے وہیں مجبوری اورمعذوری کی حالت مٰں تیمم اسکے قئم مقام ہے یعنی مٹی پانی کا بدل ہے پس وضو میں جن جن اعضاءکے پانی سے دھونے کا حکم تھا مٹی کی قائم مقام می کی صورت میں انہی اعضاءکا مسح چائیے اوروہ خدانے صرف وہ بتلائے ہیں ایک منہ اوردوسرے ہاتھ اوراس سے مصاف پتہ چلتا ہے کہ اگر وضو میں پاوں کا دھونا واجب ہوتا تو پانی کیعدم موجود گی میں پاوں کا تیمم میں بھی صحہ ہوتا پس پاوں کا تیمم میں نہ داخل ہونا اس امرکی واضح دلیل ہے کہ وضوءمیں اپانی کا دھونا واجب نہ تھا بلکہ وہاں پاوں کا مسح تھا کیونکہ وضو میں جو مسح کے اعضاءتھے وہ تیمم میں متثنا قرار پائے ہیں اورجو دھونے کے اعضاءتھے وہ تیمم میں مسح کے نیچے لائے گئے ہیں

مسئلہ تیمم چونکہ وحو یا غسل کا قائمقام ہے لہذا جو عبادات تیمم سے واقع کی جائیں اس کی قضاواجب نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنےء مقام پر صحیح شمار ہوتی ہیں

الم تر: تفسیر برہان میں قمی سے منقول ہے کہ یہاں ضلالت سے مراد حضرت علی کی ولاءسے انحراف ہے یعنی وہ لوگ خود بھی حضرت علی سے منحرف ہیں اورلوگوں کو بھی ان کی ولا سے انحراف کی ترغیب دیتے ہیں

یشترون: چونکہ یہودی علماء کےعوام کی جانب سے وظائف مقرر تھے پس یہ لوگ ان کی مرضی کے مطابق تو رات کی






(مدد گار یہودیوں میں سے بعض ایسے ہیں جو بدل دیتے ہیں لفظوں کو اپنی جگہ سے اورکہتے ہیں ہم نے سنا اورنافرمانی کی اورسن نہ سننے پائے اوررانعاموڑٹے ہوئے اپنی زنانوں کو اورطعنہ زنی کرتے ہوئے دین میں اوراگر وہ کہتے ہمنے سنا اوراطاعت کی اورسن اورنظر کر ہم پر تو خوب تھا ان کےلئے اور بہتر لیکن ان پر اللہ کیلعنت ہے بوجہ ان کے کفر کے پس وہایمان نہیں لاتے مگر کم اے وہلوگ جودئیے گئے کتاب ایمان لاو سااس کے جو ہم نے نازل کی کہ تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو تمہارے پاس سے پہلے اس سے کہ مٹادیں ہم چہروں کو کہ کردیں ان کو پیٹھ کی طرف یا ان پرلعنت کریں جس طرح ہم نے لعنت کی اصحاب سبت کو اوراللہ کا امر





(ہو کررہتا ہے تحقیق اللہ نہیں بخشتا شرک کو اوربخشتا ہے وہ جو علاوہ ہو اس کے جسے چاہے اورجو شرک کرے ساتھ اللہ کے تحقیق اس نے افتری باندھا گناہ عظیم کا کیا تم نہیں دیکھتے طرف ان کے جو پاکیزگی بیان کرتے ہیں اپنی بلکہ اللہ پاک کرتا ہے جسے چاہے اورنہ ظلم کئے جائیں گے

فنردھا علی ادبارھا: امام محمد باقر علیہ السلام سے اس کا معنی یہ منقول ہے کہ اس کو ہدایت سے منحرف کردے جس طرح اورمقام پر فرمایا کہا ن پر مہرلگا گئی اوریہ ان کی اپنی سرکشی اوربے اعتدالی کا ہی نتیجہ ہواکرتا ہے تفسیر برہان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک طویل روایت میں منقول ہے کہ یہ عذاب حضرت حجتہ اللہ علیہ السلام کے ظہرو کے وقت ہوگا اوردشمنان خدااس عذاب میں ظاہری طور پر گرفتاہوں گے

اصحب السبت: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں مچھلی کے شکار سے سنییچر کے روز منع کیا گیا تھا پھر انہوں نے حیلہ سازی کی تھی جس کے بدلہ میں بمشکل بندر اس کو مسخ کیا گیا چناچنہ تفسیرکی دوسری جلد مٰں اس کو ذکر کیا جاچکاہے

مغفرت خدا : ان اللہ:ایت مجیدہ کے شان نزول کے متعلق تفسیر مجمع البیان میں کلبی سے منقول ہے کہ حضرت حمزہ کے قاتل غلام سے مشرکین نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تہیں قتل حمزہ کے بدلہ میں ازاد کردیں گے لییکن جب واپس مکہ پہنچ کر انہوں نے اپناوعدہ پورا نہ کیا تو وپ اپنے فعل پر نادم ہوا ورحضرت رسالتماب کی طرف اپنی ندامت کا پیغام بھیجااوراسلام کی خوہش ظاہرکی اورکہلا بھیجا کہ چونکہ اسلام میں شرک اورقتل نفس اورزناکا جرم قابل بخشش نہیں ہے ہم اسی ڈرسے اسلام نہیںلاتے تب تو بہ اورعمل صالح والی ایت نازل ہوئی اوراپنے ان کو بھجوائی تو انہوں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ شاید ہم مشیت خداوندی سے باہر ہوجائیں لہذا ہمیں اطمینان نہیں ةے تب ایت اتری لا تقسطو من رحمة اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو خدا سب گناہ بخش دے گا جب یہ ایت ان کے پاس پہنچی تو وہ لوگ مسلمان ہوگئے اورمشرف بزیارت ہوئے تو حضور نے قاتل حمزہ سے حمزہ کے قتل کیکیفیت پوچھی جب اس نے واقعہ بیان کیا تو حضور نے فرمایا میری انکھوں صے دور ہوجاو چنانچہ وہ شام چلاگیا اوروہاں ہی اس کا انتقال ہو مخلصا

قران مجید کی یہ ایت گنہگار مومنین کے لئے بخشش کا سہارا ہے کیونکہ فرماتا ہے شرد کے علاوہ باقی تمام گناہ بخشے جاسکتے ہیں

(کچھ بھی دیکھئے کیسے افتری باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ کے اورکافی ہے یہ گناہ صریح )

پس مومن کو کسی صورت میں بخشش خداوندی سے مایوس نہ ہوناچائیے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے اگر مومن کی امید مغفرت اورخوف عذاب کو تولا جائے تو وہ ہموزن ہوں گے کیونکہ ناامیدہونے والے کے متعلق فرماتا ہے ومن یقنت من رحمة ربہ الاالضالون یعنی رحمت پروردگار سے صرف گمراہ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں اورعذاب خدا سے نڈر لوگوں کے متعلق فرماتاہے ولایامن مکراللہ الاالقوم الخاسرون یعنی اللہ کی گرفت سے خسارہ پانے والے ہی نڈر ہوا کرتے ہیں

ایت مجیدہ سے مغفرت عامہ کا استدلال اس طرح کیا جاتا ہے کہ خدا اگر چاہے تو تمام گناہ پلا تو بہ کئے ہی بخش دے کیونکہ تو بہ کے بعد تو شرک کا گناہ بھی معاف ہوسکتا ہے اس ایت میں شرد اوردوسرے گناہوں کے درمیان فرق کرنے کا مطلب اس کے علاوہ اورکچھ نہیں خہ اگر انسان بغیر تو بہکئے مرجائے تو شرک کے علاوہ جس قدر گناہ ہوں گے اگر وہ چاہے گا تو بخش دے گا اورشرک کا گناہ قطعا قابل بخشش ہی نہیں اوراس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شرک کے علاوہ جو گناہ ہیں وہ ہر ایک کے معاف نہ ہوں گے بلکہ بعضوں کے معاف ہوں گے کونکہ اگر سب کے معاف ہوتے تو فرماتا کہ ہر ایک کے بخش دوں گا یہ نہ فرماتا کہ جس کے چاہوں گا معاف کروں گا اوریہ بات عدل کے منافی بھی نہیں کیونکہ بلااستحقاق کسی کو سزادینامنافی عدل ہوتا ہے لیکن بلااستحقاق کسی کو انعان واکرام کرنا منافی عدل نہیں بلکہ عین تفضل ہے اوروہ اپنے افعال میں مجبور نہیں جس پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہے اسے کوئی پابندی نہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے فضل وکرم کےلئے کوئی ترجیح کی بھی تو وجہ ہوگی کیونکہ فعل حکیم حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا تو اس کے متعلق تفسیر برہان مٰں فقیہ سے مروی ہے کہ حضرت امیراالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن جس حال میں مرے جس دن مرے اورجس ساعت میں اس کی روح قبض ہو وہ صدیق اورشہید ہو کر مرتا ہے میں نے اپنے حبیب جناب رسول خدا سے سنا ہے اپ نے فرمایا اگر مومن دنیا سے کوچ کرے درحالیکہ اس کے اوپر اہل زمین کے گناہوں کے برابر بوجھ ہو تو موت اس کے تمام گنا ہوں کا کفارہ ہو جائیگی پھر فرمایاکہ جو شخص خلوص کے ساتھ کلمہ توحید زبان پر جاری کرے وہ شرک سے بری ہوگا اورجو بھی شرک سے بری ہو کر دنیا سے جائے وہ داخل جنت ہوگا پھر اپنے یہ ایت تلاوت فرمائی ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک لمن یشاءمن مضییک وشیعتک یاعلی یعنی اے علی یہ تیرے شیعوں کےلئے ہے حضرت فرماتے ہیں میں نےعرض کی حضور یہ میرے شیعوں کےلئے ہے تو اپ نے فرمایا ہاں مجھے اپنے پروردگار کی قسم یہ تیرے شیعوں کےلئے ہے اوروہ لوگ قبروں سے نکلیں گے یہ کہتے ہوئے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ علی ابن ابی طالب حجة اللہ پس جنت کے سبز حلے ان کی حدمت میں لائے جائیں گے پس وہپہنیں گے اورتاج ملک اوردستار کرامت سر پر رکھیں گے اورناقہ ہائے جنت پرسوار ہوں گے جو انہیں پرواز کرکے جنت میں پہنچائیں گی لایحزنھم انفزع الاکبر وتتلقھم الملائکة ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ان کوقیامت کی سخت گھبراہٹ محزون نہکرے گی اورملائکہ ان کا استقبال کریں گے اورکہیں گے یہ تمہارا


(کیا نہیں دیکھتے ان لوگوں کو جودیئے گئے حصہ کتاب سے ایمان رکھتے ہیں جیت اورطااغوت پر اورکہتے ہیں کہفروں کے متعلق کہ یہ لوگ زیادہ پانے والے ہیں بہ نسبت مومنوں کے راہ ہدایت کو ایسے لوگوں کولعنت کی ہے اللہ نے اورجس کو لعنت کرے اللہ تو ہر گز نہ پاو گے اس کا کوئی مدد گار کیا ان کا حصہ ہے سلطنت سے پھر تو وہ نہ دیں گے لوگوں کو نقیر برابر بھی)

وہی دن ہے جس کا تم وعدہ کئے گئے تھے اسی بناءپر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے شرک سے مراد لیا ہے کفر ولایت علی اوریغفر مادون ذلک لمن یشاءکا مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی علیہ السلام سے ولارکھتے ہیں۔

الم تر: یہود ونصری اپنے متعلق کہتے تھے کہ ہم اللہ کے دوست اورخالص جنتی ہیں آیت مجیدہ نے ان کے قول کی تردید کردی ہے۔

فَتِيلاً : فتیل کھجورکی گٹھلی پر اندر کیطرف جو شگاف ہوتاہے اورنقیرگٹھلی پرجو پشت کی طرف درمیان میں ایک لکیر ہوتی ہے اورنقیر جو گٹھلی کے اوپر باریک سی جھلی ہوتی ہے اوربعض کہتے ہیں بدن پر انگلیوں کے رگڑنے سے جو بدن کی میل باریک تاگوں کیطرح آجاتی ہے اسے فتیل کہتے ہیں ۔ 

Post a Comment