Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

پارہ 5 - والمحصنت - رکوع نمبر 1 - نکاح متعہ

وَٱلْمُحْصَنَاتُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ إِلاَّ مَا مَلَكْتَ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِن بَعْدِ ٱلْفَرِيضَةِ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً ﴿٢٤﴾
 اور (شادی شدہ عورتیں) مگر وہ جن کے مالک ہوں تمہارے ہاتھ یہ فرض اللہ کا ہے تم پر اور حلال کی گئیں تمہارے لئے وہ جو ان کے علاوہ ہیں کہ طلب کرو بذریعہ اپنے مال کے شادی کے لئے نہ زنا کے لیے پس جو متعہ کرو بذریعہ مال کے عورتوں سے تو دو ان کو ان کے اجر (حق مہر) فرضی طور پر اور نہیں گناہ تم پر اس میں جو باہمی رضامندی سے طے کرلو بعد میں مقررہ شدہ کے تحقیق اللہ علیم حکیم ہے ﴿٢٤﴾

پارہ 5 - والمحصنت - رکوع نمبر 1 - نکاح متعہ

پارہ ۵ -والمحصنت:

اس کا عطف پیچھے ہے یعنی جو عورتیں مرد پر حرام ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی شدہ یعنی منکوحہ عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ پہلا شوہر اسے اپنی قید نکاح سےآزادانہ کردے اوراس کی عدت نہ گزر جائے یاپہلے کی موت کے بعد اس کی عدت نہ گذر جائے اگر کوئی شخص منکوحہ عورت سے زناکا مرتکب ہوجائے تو وہ عورت اپنے شوہر سے آزاد ہونے کے بعد بھی اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اوراس پر حرام موبد ہوجاتی ہے بلکہ عدت کے اندر زناکرنے سے بھی وہ حرام ہوجاتی ہے۔ 

نکاح متعہ

 فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ :  ابن عباس سے منقول ہے کہ اس جگہ استماع سے مراد نکاح متعہ ہے اوروہ نکاح جو مہر معلوم کے ساتھ مدت معلومہ تک کےلئے کیا جائے آیت مجیدہ میں اس جگہ نکاح متعہ کا مراد ہونا مسلمات میں سے ہے کیونکہ یہ سورہ مدینہ ہے اوراس دور میں مسلمانوں میں متعہ کا عام رواج تھااورعامی وخاصی تمام روایات اس کو متفق طور پر تسلیم کرتی ہیں چنانچہ فخرادین رازی نے بھی تفسیر کبیر جلد ثالث مطبوعہ مصر ص194 پر تسلیم کیا ہے کہ واقعی یہ آیت نکاح متعہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے اوراس سے ہمارا کوئی انکار نہیں البتہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوچکاہے اوراس کے نسخ کے قائل بعض کہتے ہیں کہ دوسری آیت قرآنیہ اس کی ناسخ ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ احادیث نبویہ اس کی نا سخ ہیں جو لوگ آیات قرانیہ کو ناسخ قرار دیتے ہیں ان میں باہمی زبردست اختلاف ہے۔ 

بعض کہتے ہیں کہ آیت طلاق اس کی ناسخ ہے کیونکہ بالعموم عورتوں کی علیحد گی کی صورت طلاق ہوتی ہے اورنکاح متعہ میں طلاق نہیں پس منسوخ ہے بعض کہتے ہیں آیت میراث اس کی ناسخ ہے کیونکہ زوجہ مرد کی وارث قرار دی گئی ہے اورمتعہ میں ایسانہیں ہوتا پس منسوخ ہے اوبعض آیت عدد سے جس میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار عورتوں تک نکاح کی اجازت ہے اورمتعہ اس سے خارج ہے وغیرہ لیکن تامل وغو رکرنے کے بعد صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں سے کوئی بھی نکاح متعہ کےلئے ناسخ نہیں ہوسکتی قطع نظر اس سے کہ قائلین نسخ خود ایک دوسرے سے اتفاق نہیں رکھتے کہ کس آیت کو ناسخ قرار دیا جائے اسی طرح سنت سے نسخ کی قائل بھی متفق نہیں ہیں بلکہ بعض کہتے ہیں فتح خیبر کے سال اوربعض کہتے ہیں فتح مکہ کے وقت اوربعض حجتہ الوداع کے موقعہ پر نکاح متعہ کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں اورعلاوہ بریں خبر واحد حکم قرآنی کی ناسخ نہیں ہوسکتی بلکہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اخبار کو قران سے سامنے رکھا جائے جو کتاب اللہ کے موافق ہو وہ قابل عمل ہے ورنہ مردودتو درایں حالات کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے اخبار کو ایسے حکم قرآنی کا ناسخ قرار دیا جائے جو ایک عرصہ دار زتک معمول رہا ہو اور تواتر سے اس پر عمل ثابت ہو۔ 

چنانچہ علامہ فخرالدین رازی اس مقام پر قائلین متعہ کے استدلال کو اس طرح نقل کرتے ہیں اس میں شک نہیں کہ متعہ اسلام میں جائز تھا البتہ اس کے منسوخ ہونے میں شک ہے تو ہم کہیں گے کہ اس کا نسخ تواتر سے ثابت ہے یا خبر واحد سے اگر تواتر سے ثابت ہوتا تو حضرت علی اورابن عباس جیسے بزرگوار کیسے اس سے بے خبر رہتے اوراگر خبر واحد سے نسخ مانا جائے تو غلط ہے کیونکہ حکم متعہ کا ثبوت قطعی ہے اورخبر واحد ظنی ہوا کرتی ہے ا ورقطعی کو ظنی کے ذریعہ سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ 

نیز جن روایات میں ہے کہ حضرت رسالتمابؐ نے یوم خیبر متعہ کی حرمت کا حکم دیا تھا وہ ا س لئے ناسخ نہیں بن سکتی کہ اکثر روایات میں یہ ہے کہ حضورؐ نے حجتہ الواداع یافتح مکہ کے وقت متعہ کی حلیت کا فرمان صادر کیا تھا۔ 

نیز حضرت عمر کا کہنا ہے کہ دومتعے جناب رسالتمآب کے زمانہ میں جائز تھے اورمیں ان کو حرام قرار دیتا ہوں ایک متعہ حج اوردورا متعہ نساءگویا ان کا صاف اقرار ہے کہ رسالتمآبؐ کے زمانہ میں یہ حلال تھا اورمنسوخ نہ تھا اورمیں ہی اس کو منسوخ کرہا ہوں اورعمران بن حصین نے یہی دلیل پیش کی تھی جب اس پر متعہ کے متعلق اعترض کیا گیا تھا کہ حضرت رسالتمابؐ نے ہمیں متعہ کا حکم دیا تھا اورہم کرتے رہے اور آخر تک آپ نے منع نہ فرمایا پھر ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا کردیا یعنی حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے ملخص۔ 

تفسیر میزان میں کنزالعمال سے منقول ہے کہ ایک شخص شام سے مدینہ میں وارد ہوا اورایک عورت سے متعہ کرکے کچھ مدت مقیم رہا بعد میں حضرت عمر کو اطلاع ہوئی تو اس کو بلایا گیا اورپوچھا گیا کہ کیا تو نے ایساکیا ہے اس نے کہا ہاں سوال کیا گیا کہ تو نے ایساکیں وکیا ہے تو اس نے جواب دیاکہ ہم نے جناب رسالتمآب کے زمانہ میں کیا ہے اورکرتے رہے ہیں اورحضور نے تادم وفات منع نہیں فرمایا پھر حضرت ابوبکر کے زمانہ میں بھی کرتے رہے ہیں اورآپ کے دور خلافت میں بھی اج تک ہوتارہا ہے اورآپ نے منع نہیں کیا تو حضرت عمر نے قسم کھا کر فرمایا کہ اگر اس سے پہلے میں منع کرچکا ہوتا تو ضرور تجھے سنگسار کرتا نیزحرمت متعہ کو جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاءمیں اولیات عمر میں سے لکھا ہے اوراس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے حرام نہ تھا ورنہ متعہ کی حرمت اولیات عمر سے کیوں کربن سکتی۔ 

صحیح مسلم اورمسند احمد سے بروآیت عطا منقول ہے کہ جابربن عبداللہ عمرہ کے لئے آیا تو ہم اس کے پاس جمع ہوگئے پس لوگوں نے مختلف موضوعات پر کلام کرنے کے بعد متعہ کی بحث کو چھڑا تو جابر نے جواب دیا کہ ہم جناب رسالتمابؐ اورحضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے زمانہ میں خود کرتے رہے ہیں ایک اورروایت میں جابر سے مروی ہے کہ ہم نے رسالتمابؐ اورکے زمانہ میں اورحضرت ابوبکر کے زمانہ اورحضرت عمر کے نصف دور خلافت تک متعہ کیا ہے اوراس کے بعد حضرت عمر نے منع کیاہے۔ 

محاضرات راغب سے منقول ہے کہ عبداللہ بن عباس چونکہ متعہ کے جواز کا فتوے دیا کرتے تھے تو عبداللہ بن زبیر نے ابن عباس پر اس بارہ میں طعن کیا تو ابن عباس نے کہا کہ اپنی ماں سے دریافت کرو چنانچہ جب اس نے اپنی ماں سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں نےتجھے متعہ سے جنا تھا ۔ عبداللہ بن زبیر کی والدہ حضرت ابوبکر کی حاحبزادی تھی اورحضرت عائشہ کی بہن تھی اوراس کا حضرت زبیر (جو عشرہ مبشرہ میں سے شمارہو تاہے) سے متعہ تھا اوراسی سے حضرت عبداللہ بن زبیر پیداہوئے۔ 

نیز صحیح ترمذی میں بھی ہے ایک شخص نے ابن عمر سے متعہ کے متعلق سوال کیا تو اس نے جواز کا فتٰوی دیا تو سائل نے کہا کہ تیرا باپ تو حرمت کا حکم دیتا ہے اس کے جواب میں ابن عمر نے کہا کہ جس چیز کو جناب رسالتمآبؐ نے سنت قرار دیا ہو اگر میرا با پ اسے روکے توکیا تم سنت رسولؐ پر عمل کرو گے یا میرے باپ کا کہنا مانوگے  پس روایات صاف بتلاتی ہیں کہ نکاح متعہ نہ کتاب سے منسوخ ہے نہ سنت سے بلکہ حضرت عمر ہی نے اس کو حرام قرار دیا تھا ورمتعہ کرنے والوں کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی تھی۔ 

تفسیر میزان میں مستدرک حاکم سے مروی ہے کہ ابونضرہ کہتا ہے میں نے ابن عباس کے سامنے ایت متعہ تلاوت کی تو ابن عباس نے کہا فَمَااسْتَمْتَعْتَمْ بِہٖ مَنْھُنَّ اِلًٰی اَجَل مُّسَمّْیً راوی کہتا ہے ہم تو ایسا نہیں پڑھا کرتے تو ابن عباس نے کہا خداکی قسم اسی طرح نازل ہوئی ہے غالباً مقصد یہ ہے کہ جناب رسالتمابؐ کے زمانہ میں اس آیت کو اس تفسیر کے ساتھ پڑھاکرتے تھے اورجبرئیل اس کا یہ مطلب لے کر آیا تھا بہر کیف منصف مزاج انسان کےلئے تو ان روایات کو دیکھنے کے بعد کوئی شک وشبہ کی گنجائش تک نہیں رہتی کہ متعہ جناب رسالتمابؐ کے زمانہ میں جاجائز اورمروج تھا اورقطعاً منسوخ نہیں ہو اتھا لہذاآپ کے بعد کسی آپ کے جانشین کو حق نہیں پہنچتا کہ شریعت مقدسہ کے کسی حکم میں ترمیم یا تنسیخ کرے اوراسی بناءپر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ عمرنے متعہ کو حرام نہ کیا ہوتا تو کوئی بدنصیب ہی زنا کا مرتکب ہوتا اوراس روایت کو تفسیر کبیر میں محمد بن جریر طبری کی تفسیر سے نقل کیا گیا ہے متعہ کے جواز بلکہ سنت ہونے کے متعلق اہلبیت اطہار علیہم السلام سے احادیث بحدتواتر موجود ہیں اورشہید ثانی اعلٰی اللہ مقامہ فرماتے ہیں کہ اگر چہ تقیہ کے پیش نظر ہماری احادیث میں بسا اوقات اختلاف رونما ہو جایاکرتا ہے لیکن متعہ کا حکم اگر چہ باقی فرق اسلامیہ میں سے شیعہ کا امتیازی فتٰوی ہے لہذ اس بارے میں احادیث میں اختلاف کا ہونا بعید نہ تھا اوربایں ہمہ ایک حدیث بھی آئمہ الطاہرین علیہم السلام سے ایسی منقول نہیں جس میں متعہ کی حرمت کا فتوی دیا گیا ہو۔ 

وَلاجُنَاحَ عَلَیْکُم: بروایت تفسیر عیاشی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر متعہ کی میعاد ختم ہو جائے اورزن ومرد اس کو بڑھانا چائیں تو مرد مہر کو بڑھادے اورعورت مدت کی زیادتی کی اجازت دے پس مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ کا مطلب یہ ہے کہ مدت ختم ہوجانے کے بعد ہر دو کی رضامندی سے مہر اورمدت میں اضافہ ہوسکتا ہے البتہ متعہ کی حرمت کا فتوی دینے والے ایک عذر پیش کرتے ہیں کہ جس وقت جناب رسالتمآبؐ نے متعہ کی اجازت دی تھی اس وقت ضرورت لاحق تھی یعنی صحابہ گھروں سے دور ہونے کی وجہ سے مزید صبر نہیں کرسکتے تھے پس اس ضرر کو رفع کرنے کےلئے یہ حکم عارضی طور پر دیاگیا اوربعد میں منع کیا گیا اس کا جواب تفسیر میزان نے یہ دیا ہے کہ اگر متعہ کو زنا سے تعبیر کیا جائے تو کیاایسی صورتوں میں زناکی اجازت دی جاسکتی ہے اورنیز کیا جناب رسالتمآبؐ کے دور کے بعد وہ ضرورت برطرف ہوگئی تھی جبکہ ہزاروں کی تعدمیں مسلمانوں کی فوجیں مشرق سے مغرب تک جایا کرتی تھیں اورکافی عرصہ کےلئے مجاہدوں کو گھروں سے غائب رہنا پڑتا تھا اورنیز حضرت عمر کی ابتدائی خلافت اوراس کے آخری حصہ میں ضرورت کس طرح تبدیل ہوگئی اورپھر زمان حاضر میں ضرورت کا جائزہ لیجئے جب کہ جذبات شہوانیہ کے مظاہرے ناموس انسانیت کو داغدار کررہے ہیں اوردن بدن روز افزوں ترقی پر ہیں یہاں تک کہ نوجوان طبقہ میں بدکاری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ خدا کی پناہ ی زنااورلواطہ کیوں ہمہ گیر ہو رہا ہے وجہ یہ ہے کہ زیادہ شادیاں کرنا بعض ملکوں میں تو قانوناً ممنوع ہیں اورجہاں ممنوع نہیں وہاں نکاح دائمی کے اخراجات کے بوجھ برداشت کرنے کی طاقت کم ہے یاایسی رکاوٹیں موجود ہوتی ہیں مثلاً تحصیل علم یا ملازمتیں وغیر ہ کہ انسان شادی نہیں کرسکتا پس جذبات کے مقابلہ سے عاجز ہو کر زناکاری اورلواطہ کاری کو ہی باعث تسکین سمجھ لیا جاتا ہے۔ 

ان ضروریات کے پیش نظر اگر متعہ جائز ہوتا تو کیوں یہ بدکاری ہمہ گیر طوفان بن کراہل عالم پر چھاجاتی۔ 

نیز یہ اعتراض بھی ہوتا ہے کہ عورت ومرد کی ازدواجی زندگی صرف نسل انسانی کو برقرار رکھنے کےلئے ہے نہ کہ خوہشات کا الو سیدھا کرنے کے لئے اورنکاح متعہ چونکہ سرف جذبات شہوانیہ کی تسکین کے لئے ہوتا ہے لہذا یہ غرض خلقت کے منافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ واقعی احکام شرعیہ مصلحتوں کے ماتحت ہو اکرتے ہیں اورنکاح کی مصلحت حقیقہ ہے نسل انسانی کو برقرار رکھنا لیکن اس سلسلہ کو جاری کرنے کے جب تک عورت ومرد میں ایک دوسرے کی طرف کشش نہ ہو یہ خواب کیونکہ شرمندہ تعبیر ہو پس خداوند کریم نےعورت ومرد میں کشش پیداکرنے کے لئے ان کو اپنی حکمت تامہ کی روسے قوت شہوانیہ عطافرمائی تاکہ ان کا باہمی تجازب سلسلہ نسل انسانی کا پیش خیمہ ہو پس فطری طور پر انسان بقاء نسل کی طرف اقدام کرتا ہے لیکن شہوانی کشش کے ماتحت ورنہ اگر یہ کشش نہ ہوتی تو قطعاً یہ غرض پوری نہ سکتی دیکھئے نکاح سنت ہے اورخداوند کریم کی طرف سے انسان پر عائد شدہ احکام واجبات ومحرمات جن کوشریعت مقدسہ نے رائج فرمایا ہے کس قدر زیادہ ہیں اورانسان اورخصوصاً مسلمانوں کا طبقہ ان پر کس حدتک عمل پیرا ہے اور یہ اس لئے کہ ان پر عمل کرنے سے انسان کو لذت نہیں آتی اورجن چیزوں میں نفس لذت محسوس کرتا ہے خواہ خداان کو حرام بھی کہے ان سے باز نہیں آتا اورنکاح باوجود یکہ سنت ہے لیکن چونکہ اس میں لذت ہے اس لئے اس کی طرف خوشی سے بلکہ لڑبھڑ کر اقدام کرتاہے بلکہ اس راہ میں ہزار روکاوٹیں ہوں تب بھی ان کے دفع کرنے کےلئے ہمہ تن تیار ہوتا ہے بلکہ اس کی خاطر جان ومال تک کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا پس یقینی بات ہے کہ اگر خواہش وشہوت نہ ہوتی نسل انسانی کی برقراری کی غرض سرف عورت ومرد کی خلقت سے پوری نہیں ہوسکتی تھی۔ 
پس عورت ومرد کی ازدواجی زندگی صرف نسل انسانی کی بقاءکےلئے نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ انسان حیوانیت کی بے راہ روی سے بچ سکے اور افراط وتفریط سے یکسو ہو کر تمدن انسانی کا ضامن ہو جس کے لازمی نتیجہ میں نسل انسانی کی بقاءسے زمین آباد ہو اورعالم سکون واطمینان کا گہوارہ ہو پس خواہشات کا پورا کرنا غرض خلقت انسانی کے منافی نہیں ہاں ان کی آوارگی اوربے راہ روی منافی فطرت بھی ہے مصارم غرض بھی یہ ضروری نہیں کہ ہر شادی کرنے والاجوڑا صاحب اولاد ہو تو کیا ایسی صورت میں ان کا شادی کرنا ناجائز قرار دیا جائے کیوکہ ان کی شادی نے نسل انسانی پرکچھ اثر نہیں پرتا اسی طرح بانجھ عورت سے شادی کرنا اوراسی قسم کی ہزاروں شقیں سامنے لائی جاسکتی ہیں بہر کیف شہوت کی تکمیل حرام نہیں بلکہ تکمیل شہو ت میں بے راہ روی اورآوارگی شریعت مقدسہ نے ناجائز قرار دی ہے بنابریں نکاح متعہ کو شریعت مقدسہ نے اسی آوار گی اوربے راہ روی کے سد باب کےلئے ایجاد کیا تھا جبھی تو مولائے کائنات فرمایا کرتے تھے اگر متعہ کو حرام نہ کیا گیا ہوتا تو بدتصیب ہی بدکاری کا مرتکب ہوتا پس اس باب میں اتنا لکھنا کافی ہے اس کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ متعہ انہی عورتوں سے ہوسکتا ہے جن سے نکاح دائمی ہوسکتا ہے اورمتعہ کی مدت ختم ہو جانے کے بعد اس کو بڑھایا بھی جاسکتا ہے مدت ختم ہوجانے کے بعد عورت کےلئے طلاق کی نصف عدت تک انتظار کرنا ضروری ہے اس کے بعد وہ کسی دوسرے سے نکاح متعہ یا نکاح دائمی کرسکتی ہے نیز متعہ کی اولاد اس مرد کی صحیح اولاد ہوگی اوراوہ اپنے ماں باپ کی وارث ہو گی جس طرح دوسری اولاد وارث ہوا کرتی ہے نیز متعہ کے صیغے نکاح کے صیغوں کی طرح پڑھے جاتے ہیں اورمجبوری کی صورت میں ان کے اپنی زبان میں ترجمہ سے بھی متعہ ہوسکتا ہے اورمتعہ میں تعداد کی کوئی پابندی نہیں حتی کہ اگر چار منکوحہ عورتیں گھر میں ہوں تب بھی ایک یا زیادہ عورتوں سے متعہ کیا جاسکتاہے۔ 
وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ : یعنی اگر آزاد عورت کے حق مہر اوراخراجات کا بوجھ نہ برداشت کرسکو تو کنیزوں سے شادی کرلو کیونکہ ان کے مہر واخراجات میں تخفیف ہوتی ہے یعنی دوسروں کی کنیزوں سے ان کی اجازت کے ماتحت ورنہ اپنی کنیز تو بغیر نکاح کے حلال ہوا کرتی ہے اورشرط یہ ہے کہ کنیز بھی مومنہ ہو معلوم ہوا کہ کافرہ سے نہیں ہوسکتا۔ 

بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ : اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ تم سب بنی آدم ہواورایک ہی جنس سے ہو یا یہ کہ تم سب آپس میں ایمانی بھائی ہو لہذاکیزوں سے شادی کرنا عار نہ سمجھو۔ 

وَلَامُتَّخِدَاتِ اَخْدَانً : عرب جاہلی میں بعض لوگ ایسے تھے جو اعلانیہ زناکو گناہ سمجھتے تھے اورخفیہ زناکو وہ جائز جانتے تھے اس لئے خداوندکریم نے ان دونوں کو الگ الگ ذکر کرکے منع فرمایا نہ و ہ مسافحات ہوں یعنی اعلانیہ زناکرنے والی اورنہ متخذات اخدان ہوں یعنی خفیہ یار رکھنے والیں۔ 

نِصْفُ مَاعَلَی الْمُحْصَنٰتِ: یعنی اگر آزاد ومنکوحہ عور ت زنا کرے تو اس کی سزا کی نصف سزا کنیز کو دی جائے گی اگر زناثابت ہوجائے یعنی پچاس کوڑے۔ 

لِمَنْ خَشِیَ الْعَلَتَ :  یعنی اگر غلبہ شہوت سے مجبور ہو کر زنا میں پڑنے کا ڈر ہو تو کنیزوں سے شادی کرے ورنہ اگر صبرکرسکے تو اورزیادہ بہتر ہے۔ 

Post a Comment