Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

سورہ النساء - رکوع2 - گناہان کبیرہ سے بچنے کا حکم

سورہ النساء  - رکوع2 -  گناہان کبیرہ سے بچنے کا حکم

يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦﴾
چاہتا ہے خدا کہ بیان کرے تمہارے لئے (احکام) اور بتائے رستے ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے اور رجوع رحمت کرے تم پر اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ﴿٢٦﴾

وَٱللَّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُواْ مَيْلاً عَظِيماً ﴿٢٧﴾
 اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر رجوع رحمت کرے اور چاہتے ہیں وہ لوگ جو پیچھے پڑتے ہیں شہوتوں کے یہ کہ تم کج روی کرو زیادہ ﴿٢٧﴾
يُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ ٱلإِنسَانُ ضَعِيفاً ﴿٢٨﴾
 چاہتا ہے اللہ کہ تخفیف کرے تم سے اور پیدا ہوا ہے انسان کمزور ﴿٢٨﴾

يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُوۤاْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِٱلْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنْكُمْ وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ أَنْفُسَكُمْ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيماً ﴿٢٩﴾
 اے ایمان والو! نہ کھاؤ ایک دوسرے کے مال آپس میں غلط طریقہ سے مگر یہ کہ تجارت ہو باہمی رضامندی تمہاری سے اور نہ قتل کرو آپس میں تحقیق اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے ﴿٢٩﴾

وَمَن يَفْعَلْ ذٰلِكَ عُدْوَاناً وَظُلْماً فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَاراً وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيراً ﴿٣٠﴾
 اور جو ایسا کرے ازراہ سرکشی و ظلم تو عنقریب اس کو جلائیں گے ہم دوزخ میں اور یہ اللہ پر آسان ہے ﴿٣٠﴾

إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلاً كَرِيماً ﴿٣١﴾ 
اگر بچو گناہانِ کبیرہ سے جن سے منع کئے گئے ہو تو ہم دور کردیں گے تم سے برائیاں تمہاری اور داخل کریں گے پاکیزہ جگہ میں ﴿٣١﴾

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَ وَٱسْأَلُواْ ٱللَّهَ مِن فَضْلِهِ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً ﴿٣٢﴾
 اور نہ خواہش کرو اس کی کہ زیادتی دی ہے اللہ نے اس شے کی بعض کو بعض پر مردوں کے لئے ہے حصہ اس سے جو کمائیں اور عورتوں کے لئے ہے حصہ اس سے جو کمائیں اور مانگو اللہ سے اس کی زیادتی تحقیق اللہ ہے ہر شے کو جاننے والا ﴿٣٢﴾

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِىَ مِمَّا تَرَكَ ٱلْوَالِدَانِ وَٱلأَقْرَبُونَ وَٱلَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيداً ﴿٣٣﴾ 
اور ہر ایک کے لئے بنائے ہم نے وارث اس کے جو چھوڑ جائیں ماں باپ اور صاحبانِ قرابت اور وہ لوگ جو تمہارے ہم قسم ہوچکے ہیں پس دو ان کو حصہِ تحقیق اللہ ہر شے پر حاضر ناظر ہے ﴿٣٣﴾

سورہ النساء  - رکوع2 -  گناہان کبیرہ سے بچنے کا حکم

سورہ النساء  - رکوع2 

يُرِيدُ ٱللَّهُ : یعنی خدا چاہتا ہے کہ گزشتہ نیک لوگوں کےطریق پر چلو تاکہ جس طرح وہ انجام کار خداکی رحمت سے واصل ہوئے اسی طرح تم بھی انہی جیسی نعمات حاصل کرو لیکن خواہش پرست لوگ تمہیں خداکی رحمت سے دور کرنے پرآمادہ ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ تم خداکی حدود شکنی کرکے مستحق عذاب ہو جاؤ۔ 

أَن يُخَفِّفَ : یعنی آزاد عورتوں سے نکاح نہ کرسکنے کی صورت میں اس نے کنیزوں سے نکاح کرلینے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ انسان کمزور ہے اوروہ صبر نہ سکے گا یایہ کہ تہمارے گناہوں کے بعد اس نے توبہ کادروازہ کھول رکھا ہے کیونکہ وہ انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے۔ 

بِٱلْبَاطِلِ : مجمع البیان میں اس سے مراد سودخوری،  جوا ، دھوکہ اورظلم میں اوریہی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے ۔ 
وَلاَ تَقْتُلُوۤاْ  :  یعنی خدا کی نافرمانی سے اپنے نفسوں کو ہلاک نہ کردیا بعض بعض کو قتل نہ کرو اورقتل نہ کرو اورقتل نفس سے باز رکھنے کا حکم خدا کا رحم ہے ورنہ اگر اس کی طرف سے منع نہ ہو تو انسان بلکہ انسانیت تباہ ہوجائے گی۔ 

سورہ النساء - گناہان کبیرہ سے بچنے کا حکم

إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ : بعض علماءنے کہاہے کہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس کے متعلق خداوندکریم نےقران مجید میں جہنم کی وعید کی ہے اوراس دنیا میں اس کےلئے حد مقرر فرمائی ہے اورابن عباس سے منقول ہے کہ ہر وہ چیز جس سے خدانے منع فرمایا ہے اس کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے صاحب مجمع البیان فرماتے ہیں ہمارے علماءکا مسلک یہی ہے کہ گناہ سب کبیرہ ہیں لیکن چونکہ بعض بعض سے اکبر ہیں اس لئے ان کو صغیرہ وکبیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے نیز آیت کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اگر تم گناہان کبیرہ سے باز رہو گے جونکاح میراث اوریتیموں کے اموال اورسود خواروں وغیرہ کے متعلق اسی سورہ میں بیان کئے جاچکے ہیں تو اس سے پہلے کی اس قسم کی تمہاری برائیا ں معاف کردی جائیں گی اسی بناءپر ابن مسعود سے منقول ہے کہ اس سورہ میں اول سے لیکر آیت30 تک جن چیزوں سے خدا نے فرمایا ہے ان کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے اورعلامہ طبرسی نے اسی کو پسند فرمایا ہے لیکن میرے خیال میں اس کو مخصوص کرنے کی ضرروت نہیں جبکہ آیت کے عمومی الفاظ بھی اس سے انکاری ہیں پس مقصد یہ لیا جائے کہ اگر انسان گناہان کبیرہ سے رک جائے تو اس کے گناہان صغیرہ معاف کردئیے جائیں گے تو بہتر ہو گا اورروایات آئمہ بھی اس کی مویّد ہیں ہاں علامہ طبرسی کے نزدیک چونکہ گناہ سب کبائر ہیں اس لئے انہوں نے شاید اس معنی کو اختیار نہ فرمایاہو لیکن وہ بھی اپنے مقام پر گناہوں میں فرق تو کرتے ہیں اورمعنی اس کے مختار کے مطابق اسی نہج پر ہوسکتا ہے۔ 

تفسیر مجمع البیان میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے گناہان کبیرہ کی فہرست یہ نقل کی گئی ہے کہ عمروبن عبید بصری نے آپ کے سامنے یہ آیت پڑھی اورچپ ہو گیا آپ نے فرمایا خاموش کیوں ہوا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور گناہان کبائر میں معلوم کرنا چاہتا ہوں پس آپ نے فرمایا (۱)سب کبائر سے اکبر گناہ ہے شرک کرنا چنانچہ اس کے متعلق فرماتا ہے مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ  جو شرک کرے گا اس پراللہ نے جنت حرام کی ہے اوراس کا ٹھکانا جہنم ہے (۲) اللہ کی رحمت سے نامیدی چنانچہ فرماتا لا یَیأسُ مِنْ روحِ اللهِ إلّا القَومُ الکافِرونَ (۳) اللہ کی گرفت سے بے خوف فرماتا ہے  لَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ  (۴) والدین کی نافرمانی (۵) نفس محترمہ کا قتل (۶) پاک دامن شادی شدہ عورتوں کو زنا کی تہمت دینا (۷) یتیم کا مال کھانا (۸) جہاد سے بھاگنا (۹)سود کھانا (۰۱)جادوکرنا (۱۱) زنا(۲۱)جھوٹی قسم کھانا (۳۱) دھوکا (۴۱)زکوة ادانہ کرنا (۵۱) جھوٹی گواہی دینا (۶۱)شہادت حق پر پردہ ڈالنا (۷۱)شراب پینا(۸۱)نماز ادا نہ کرنا (۹۱)کوئی دوسرا فرض نہ ادا کرنا (۰۲)عہد شکنی (۱۲) قطع رحمی اورآپ نے ان تمام گناہوں کے اثبات میں آیات قرانیہ تلاوت فرمائیں جن کو ہم نے اختصار کے پیش نظر چھوڑ دیا ہے پس جب عمروبن عبید بصری نے سنا تو چیخیں مارتا ہوا باہر نکلا اوریہ کہہ رہا تھا کہ جو شخص اپنی رائے سے کچھ کہے یا آپ سے فضل میں برابری کا دعوٰی کرے تو وہ ہلاک وبرباد ہے تفسیر برہان میں فقہیہ سے منقول ہے کہ امام رضاعلیہ السلام سے حاکم جائر کی ملازمت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے سلیمان راوی حدیث سے فرمایا (۲۲)اے سلیمان ان کے اعمال میں داخل ہونا ان کی امداد کرنا اوران کے حوائج میں جدوجہد کرنا کفر کے برابر ہے (۳۲) اوران کی طرف عمداً نگاہ اٹھا کر دیکھنا گناہ کبیرہ ہے جس سے انسان دوزخ کا سزاوار ہو جاتا ہے (ممکن ہے اس کے مصادیق اس زمانہ کے سلاطین بنی عباس ہوں جوآئمہ اہلبیتؑ اورجملہ سادات بنی فاطمہؑ کے قتل وآزار کےلئے ہر وقت آمادہ تھے پس چونکہ ان کے کاروبار میں شریک ہونا اوران کی امداد کرنا قتل آئمہ اورایذاءسادات میں شرکت کا موجب تھا۔  اس لئے معصوم نے اسے کفر سے تعبیر فرمایا واللہ اعلم ) ایک روایت میں حضرت امیرالمومنین سے منقول ہے (۴۲) مطلق نشہ اورمستی گناہ کبیرہ ہے (۵۲) اوراسی طرح وصیت میں باقی ورثاءپر زیادتی کرناابھی گناہ کبیرہ ہے۔ 

تفسیر برہان میں بروایت فقیہ اورتہذیب امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ تمام گناہان کبیرہ میں سے اکبر کل سات ہیں (۱)شرک (۲) قتل نفس(۳) مال یتیم کا کھانا (۴) والدین کی نافرمانی (۵) پاکدامن عورت پر تہمت (۶) جنگ سے فرار (۷) اللہ کی نازل کردہ چیز کا انکار۔ 
  •  شرک کے متعلق تو تم لوگ سن چکے ہو کہ کیا کچھ خداورسول نے ہمارے حق میں فرمایا لیکن لوگوں نے اس بارے میں خداورسول کو جھٹلایا پس وہ شرک کے مرتکب ہوئے۔ 
  •  قتل نفس کے بارے میں امام حسینؑ اورانکے اصحاب کا قصہ اظہر من الشمس ہے۔ 
  •  یتیم کا مال سوہم یتیم ہیں اورہمارا مال فے ہضم کیاگیا ۔ 
  • والدین کی نافرمانی تو رسول بفرمان خداامت کا باپ تھا تو اس کی ذریت کے حق میں اس کی نافرمانی کی گئی۔ 
  •  پاکدامن پر تہمت سوانہوں نے جناب فاطمہؑ کے متعلق منبروں پر بہت کچھ کہا ۔ 
  • جہاد سے فرار تو حضرت امیر علیہ السلام کی بیعت کرکے فرار کرگئے۔ 
  •  خداکی نازل کردہ اشیاءکا انکار تو ہمارا حق ہے جس کا انکار کیاگیا اوریہ وہ گناہ ہیں جن سے کسی کو معاف نہ کیا جائے گا اورپھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی مقصد یہ ہے کہ جو شخص ان گناہوں سے بچ جائے اس کے باقی گناہ عفو کے قابل ہو اکرتے ہیں لیکن ان کا یہ مطلب ہرگز نہ سمجھنا چائیے کہ صرف اہلبیتؑ عصمت کی ولایت ومحبت کافی ہےاورباقی اعمال کی ضروت نہیں ورنہ ایسے لوگوں سے آئمہؑ طاہرین بری الذمہ ہیں۔ 
 چنانچہ ہم نے تفسیر کی جلد اول میں بھی اس کی کافی وضاحت کی ہے پہلی روایت میں جن گناہان کبیرہ کا ذکر تھا وہ تھی آیات مجیدہ کی ظاہری تفسیر اورآخری حدیث میں گناہان کبیرہ کے جن افراد اوران کے ارتکاب کرنے والوں کا تذکرہ ہے اس سے مراد ہے آیت مجیدہ کی باطنی تاویل اورقران کے ظاہر پر جس طرح عمل کرنا واجب ہے اسی طرح قران کے باطن پر بھی ایمان رکھنا واجب ہے اورنیز معصوم کی اس باطنی تاویل کو صرف انہی افراد تک محدود بھی نہیں سمجھنا چائیے بلکہ تاویل کا سلسلہ تاقیامت جاری ہے اورقیامت تک کے لئے جو لوگ اس قسم کے کام کریں گے وہ بھی اسی آیہ مجیدہ کے ماتحت گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو کر سزاوار جہنم ہوں گے پس دور اوّل کے بعض لوگوں پرآیت کو چسپاں کرکے اپنے اعمال وکردار کو فراموش کرنا شیطانی دھوکا ہے۔ 

وَلاَ تَتَمَنَّوْاْ :یعنی دوسرے کے پاس مال نعمت اورخوبصورت عورت دیکھ کر یہ نہ کہنا چاہے کہ کاش یہ میری ہوتی کیونکہ یہ حسد ہے ہاں یہ کہنا چاہیے کہ میرے اللہ مجھے بھی اس جیسی عطا فرما۔  مجمع البیان۔  عن الصادق علیہ السلام

 لِّلرِّجَالِ :کہتے ہیں ام سلمہ نےعرض کی تھی یا رسولؐ اللہ مردوں کے لئے جہاد ہے جو عورتوں پر نہیں اورمیراث میں بھی عورت کا حصہ آدھا ہے کاش ہم مرد ہوتے تاکہ مردوں کی طرح فضلیت ہمیں ملتی تو یہ آیت اتری کہ اعمال صالحہ میں سے جو مرد کمائے گا وہ مرد کو ملے گا اورجو عورت کمائے گی اس کا بدلہ عورت کو ملے گا اللہ کے نزدیک جزا وسزا کے لحاظ سے عورت ومرد برابر ہیں گویا عورت ومرد کے درمیان احکام میں جو فرق کئے گئے ہیں وہ ظاہری دنیاوی نظام کے قائم کرنے کےلئے مبنی پر مصلحت ہیں ورنہ بعد ازمرگ جزاوسزادونوں کی یکساں ہے۔ 

وَٱسْأَلُواْ ٱللَّهَ :احادیث میں مروی ہے کہ خداوند کریم نے ہر شخص کے لئے رزق کا ایک معیار مقرر فرمایا ہے پس جو شخص اپنے رزق میں حرام کی ملاوٹ کرے اسی قدر اسکے رزق حلال سے اس کو کم کردیا جاتا ہے اگر وہ شخص کےلئے رزق کا ایک معیار مقرر فرمایا ہے پس جو شخص اپنے رزق میں حرام کی ملاوٹ کرے اسی قدراس کے رز ق حلال سے اس کو کم کردیا جاتا ہے اگر وہ شخص حرام نہ ملاتا تو اسے اپنا پورا حلال ملتا تفسیر برہان میں بروایت ابن شہر آشوب حضرت باقر وحضرت صادق علیہم السلام سے مروی ہے کہ آیت حضرت علیؑ کے حق میں اتری ہے۔ 

مَوَالِىَ :مولی کی جمع ہے اوراس جگہ اس سے مراد قریبی اوروارث ہے چنانچہ حضرت صادق علیہ السلام سے بھی یہی منقول ہے۔ 

وَٱلَّذِينَ عَقَدَتْ:اکثر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ جملہ علیحدہ ہے اورپھر اس کے معنی کے متعلق اوال چند ہیں ایام جاہلیت میں ی رسم تھی کہ دو شخص آپس میں ہم قسم ہو کر یہ باہمی عہد کرتے تھے تیرا خون میرا خون تیری جنگ میری جنگ تیری صلح میری صلح اورتو میرا وارث اورمیں تیرا وارث ہوں گا اورتو میری اورمیں تیری دیت ادا کروں گا پس اس صیغہ کے جاری ہونے کے بعد جب ان میں سے ایک پہلے مرتا تھا تو دوسرا اس کا حلیف اس کیی جائداد میں سے 1/6حصہ کا وارث قرار دیا جاتا تھا پس یہ آیت اسی کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ان کو اپنامقررہ حصہ دے دو لیکن اس کے بعد آیت وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ کے ذریعہ سے یہ حکم منسوخ ہو گی (۲) وہ لوگ مرد ہیں کہ مدینہ میں آنے کے بعد جناب رسالتمابؐ نے ان کے درمیان صیغہ مواخات جاری فرمایا تھا پس وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے اوربعد میں یہ حکم منسوخ ہوگی (۳) لوگ جاہلیت کے زمانہ میں متنبی بناتے تھے جیسے کہ زند جناب رسالتمابؐ کی متنبی تھا پس ان کے متعلق حکم تھا کہ بوقت مرگ ان کےلئے کچھ نہ کچھ وصیت کرجایا کرواوریہ آیت اسی حکم پر عمل کرنے کا امر دھرارہی ہے کہانہیں اپنا حق دے دو (مجمع البیان)

یہ آیت مجیدہ بھی جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہما کے دعوی فدک کی تصدیق کررہی ہے کیونکہ آیت مجیدہ کے الفاظ عمومی ببانگِ دہل کہہ رہے ہیں کہ ہر شخص کے لئے وارث واقربین ہواکرتے ہیں جو اسکے متردکہ کے مالک ہوا کرتےہیں خواہ وہ نبی ہوں یاغیر نبی پس حدیث مفرضہ کہ نبیو ں کا کوئی وارث نہیں ہوتا محض جھوٹ اوربے حقیقت بہانہ تھا۔ 

Post a Comment