Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

ترجمہ و تفسیر سورہ النساء - رکوع 14

تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٣﴾
 یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اطاعت کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی داخل کرے گا اس کو بہشتوں میں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ان میں اور یہ بڑی کامیابی ہے ﴿١٣﴾

وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَاراً خَالِداً فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٤﴾ 
اور جو نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسولؐ کی اور تجاوز کرے گا اس کی حدود سے اسے داخل کرے گا جہنم میں کہ ہمیشہ رہنے والا ہوگا اس میں اوراس کے لئے عذاب ذلیل کن ہوگا ﴿١٤﴾
ترجمہ و تفسیر سورہ النساء - رکوع 14

 ترجمہ سورہ النساء - رکوع 14 


وَٱللاَّتِى يَأْتِينَ ٱلْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَٱسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنْكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِى ٱلْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ ٱلْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ ٱللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً ﴿١٥﴾
 اور وہ جو کریں بدکاری تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ قائم کرو ان پر چار مرد اپنے سے بس اگر گواہی دیں تو روک رکھو ان کو اپنے گھروں میں یہاں تک کہ لے لے ان کو موت یا مقرر کرے اللہ ان کے لیے کوئی راستہ ﴿١٥﴾

وَٱللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَآ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ تَوَّاباً رَّحِيماً ﴿١٦﴾ 
اور جو دو آدمی کریں بدکاری تم میں سے تو ان کو اذّیت دو پس اگر توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو درگزر کرو ان سے تحقیق اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ﴿١٦﴾

إِنَّمَا ٱلتَّوْبَةُ عَلَى ٱللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلسُّوۤءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُوْلَـٰئِكَ يَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيماً حَكِيماً ﴿١٧﴾
 سوائے اس کے نہیں کہ توبہ قبول کرنا تو اللہ پر ان کے لئے ہے جو کریں برائی جہالت سے پھر توبہ کرلیں جلدی سے پس یہ لوگ توبہ خدا قبول کرتا ہے ان کی اور ہے اللہ علم و حکمت والا ﴿١٧﴾

وَلَيْسَتِ ٱلتَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ ٱلْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ ٱلآنَ وَلاَ ٱلَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً ﴿١٨﴾
 اور نہیں توبہ ان کے لئے جو کریں بدکاریاں یہاں تک کہ جب پہنچ جائے ان پر موت تو کہہ دے کہ میں اب تائب ہوں اور نہ ان کے لیے جو مرتے ہیں بحالتِ کفر ایسے لوگوں کے لئے ہم نے تیار کیا ہے درد ناک عذاب ﴿١٨﴾

يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ ٱلنِّسَآءَ كَرْهاً وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ ُلِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَآ آتَيْتُمُوهُنَّ إِلاَّ أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَيَجْعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً ﴿١٩﴾
 اے ایمان والو! تمہیں جائز نہیں کہ وارث بنو عورتوں کے زبردستی سے اور نہ روکو ان کو اس غرض سے کہ حاصل کرو بعض وہ جو ان کو دے چکے ہو مگر یہ کہ کریں بدکاری ظاہر اور ان کے ساتھ گزران رکھو ساتھ نیکی کے پس اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم ناپسند کرو ایک چیز کو اور رکھی ہو اللہ نے اس میں خیر کثیر ﴿١٩﴾

وَإِنْ أَرَدْتُّمُ ٱسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئاً أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً ﴿٢٠﴾
 اور اگر تم چاہو تبدیل کرنا ایک عورت بدلے ایک عورت کے۔ اور دے چکے ہو ان میں سے ایک کو مال کثیر تو نہ لو اس سے کچھ بھی کیا لینا چاہتے ہو باطل اور ظاہر باہر گناہ کے طریقے سے؟ ﴿٢٠﴾

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً ﴿٢١﴾
 اور کیسے لیتے ہو اس کو حالانکہ مل چکا ہے تمہارا بعض طرف بعض کے اور لے چکی ہیں تم سے عہد سخت ﴿٢١﴾

وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِّنَ ٱلنِّسَآءِ إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتاً وَسَآءَ سَبِيلاً ﴿٢٢﴾
 اور نہ نکاح کرو ان عورتوں سے کہ نکاح کرچکے ہیں تمہارے باپ ان سے مگر وہ گزر چکا ہے تحقیق یہ برائی اور غضب ہے اور بُرا راستہ ہے ﴿٢٢﴾

تِلْکَ حُدُوْدَ اللّٰہِ احکام میراث بیان فرمانے کے بعد ان کو اپنی حدود قرار دیا ہےاوراطاعت گذاروں کو جنت کی بشارت اورتجاوذ کرنے والوں کےلئے جہنم کی وعید کی ہے کیونکہ مال کے حصول کی خاطر بے راہ روی کرنا ابدی عذاب کا مستحق بناتا ہے اورخدا کے بیان کردہ طریق کے مطابق صرف حلال پر صبر کرنا ابدی نعمتوں کا سزاوار کرتا ہے اورعقلمند کو چاہیے کہ عارضی منافع کی خاطر ابدی وبال نہ خریدے بلکہ فانی چیز کی قربانی کرکے ابدی راحت کے حصول کی کوشش کرے۔

 تفسیر سورہ النساء - رکوع 14 

والّٰتِیْ یَاتِیْنَ دور اول میں جب عورت کی بدکاری چار گواہوں کے ذریعہ سے ثابت ہوجاتی تھی تو اسے ایک کو ٹھڑی میں قید کیا جاتا تھا یہانتک کہ وہ مرجاتی تھی پھر یہ حکم منسوخ ہوا اورشادی شدہ مرد عورت کا زنا اگر ثابت ہو جائے تو اسے سنگسار کرنے کاحکم ہو اورکنوارے مرد وعورت کا زناثابت ہو جائے تو ان کےلئے دروں کی سزا مقرر ہوئی۔ 

اَوَیَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً تفسیر صافی میں بروایت عیاشی امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اورسبیل سے مراد حدودہیں ایک اورروایت میں فرمایا کہ سبیل سے مراد کوڑے اورسنگ سار کرنا ہے بروایت غوالی جناب رسالتماب سے مروی ہے کہ یہ لو خدانے سبیل مقرر فرمادیا ہے کہ کنوارا مرد لڑکی سے زنا کرے تو اس کےلئے ایک سوتازیانہ اورایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہے اورشادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو اس کےلئے کوڑے بھی اورسنگسار کرنے کی سزا بھی ہے اورصاحب مجمع البیان نے فرمایا ہے کہ اکثر علمائے امامیہ کا فتوی یہ ہے کہ اس پر صرف سنگسار کرنے کی ہی سزا ہوگی۔ 

وَالَّذَانِ اسلام کے دور اول میں جب مردوعورت زنا کرتے تھے تو مرد کو ایزادی جاتی تھی زبان سے یا جوتوں کی مار سے اورعورت کو ایدزادی جاتی تھی کہ اس کو تادم مرگ حبس میں رکھا جاتا تھا لیکن بعد میں یہ حکم آیت رجم سے منسوخ ہو گیا۔ 

اِنَّمَا التَّوْبَةُ تفسیر مجمع البیان وبرہان میں فقیہ سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآبؐ نے آخری خطبہ میں فرمایا جو شخص مرنے سے ایک سال قبل توبہ کرے خداقبول کرے گا پھر فرمایا مہینہ زیادہ ہے جو شخص ایک دن پہلے توبہ کرلے خدا قبول فرمائے گا پھر فرمایا ایک دن زیادہ ہے جو شخص ایک گھنٹہ پہلے توبہ کرلے خداقبول کرے گا پھر فرمایا ایک گھنٹہ زیادہ ہے پس اپنے ہاتھ سے خلق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جب روح یہاں تک پہنچ جائے اورتوبہ کرے تب بھی خداقبول فرماتا ہے مروی ہے ابلیس نے کہاتھا کہ میں بنی ادم کو تادم مرگ گمراہ کرتا رہوں گا تو خدانے فرمایا تھا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں بھی اس وقت تک تونہ قبول کروں گی جب روح حلق تک پہنچ جائے۔ 

تفسیر برہان میں عیاشی سے مروی ہے کہ حضرت امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا جب روح حنجرہ تک پہنچ جائے تو اس وقت عالم کی توبہ قبول نہیں ہوتی اورجاہل کی توبہ اس وقت بھی قبول ہوتی ہے بہر کیف توبہ کو خداقبول فرمایا ہے لیکن حقوق الناس کی توبہ کے وقت ادائیگی ضروری ہے یا ان سے معافی لے لے اورحقوق اللہ کی قضالازم ہے اوروقت کم ہو تو اپنے ورثاءکو وصیت کرے تو غالباً قبولیت توبہ میں عالم وجاہل کے فرق کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص حق کو پہچانتے ہواورجہالت کی وجہ سے حق کا انکار کرتا رہے لیکن مرنے سے تھوڑا سا قبل بھی اگر وہ حق کی معرفت حاصل کرلے اوراپنی سابقہ غلطی سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ مقبول ہے واللہ اعلم۔ 

یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ تفسیر مجمع البیان میں اس کے شان نزول کے متعلق لکھاہے کہ ایک شخص ابوقیس مرگیا تو اس کے بیٹے محصن نے ابوقیس کی عورت کبشیہ پر حسب دستور جاہلی اپنی چادر ڈالی اوراس کے نکاح کاوارث بن بیٹھا اس کے بعد نہ اس کے ساتھ ہمبستری کی اورنہ اس کو کہیں اورجگہ نکاح کرنے دیا پس وہ عورت حضرت رسالتمابؐ کی حدمت میں حاضر ہوئی اورعرض کی آقا نہ مجھے شوہر کی وراثت ملی ہے اورنہ مجھے آزادی نصیب ہوئی ہے کہ کہیں اورجگہ نکاح کر سکوں تو یہ آیت نازل ہوئی اورحضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی یہی مروی ہے اورکہتے ہیں عرب کا جاہلی دستور تھا کہ مرنے والے کا بیٹا یا اس کا دوسرا ولی جس طرح مرنے والے کے باقی مال کا وارث ہوتا تھا اس کی عورت کا بھی وہ وارث ہوتا تھا پس اس پر اپنی چادر ڈال دیتا تھا اگر چاہتا تو اسے متوفی کے ادا کردہ حق مہر سے ہی اپنی زوجہ بنا لیتا اوراگر چاہتا تو اس کی دوسری جگہ شادی کرکے اس کا حق مہر خود وصول کرلیتا پس اس آیت نے ان کو اس فعل شنیع سے روک دیا۔ 

بعض کہتے ہیں کہ ایک شخص کی عورت ہوتی تھی اوراس نے اس کا حق مہر بھی ادا کرنا ہوتا تھا لیکن یہ اس کے ساتھ ہمبستری کرنا پسند نہ کرتا تھا تو اس کو اذیت دیتا تھا تاکہ وہ مہر بخش دے پس ان کو اس آیت مجیدہ کے بعد روکا گیا۔ 

نیز کہتے ہیں مرد جن عورتوں کر ناپسند کرتے تھے ان کو زبردستی اپنے گھروں ں روکے رہتے تھے تاکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی وراثت کے حقدار بنیں پس یہ آیت اتری اورحضرت باقر علیہ السلام سے یہ بھی مروی ہے اورآیت کے عموم کے پیش نظر بیان کردہ تمام صورتیں مرادہو سکتی ہیں اورروایت میں بھی غالباً مصداق ایت کے ایک فرد کو بطور مثال کے پیش کیا گیا ہے

اِلَّااَنْ یَّاتِیْنَ تفسیر مجمع البیان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فاحشہ سے مراد ہو قسم کی نافرنانی ہے تو پس ایسی صورت میں عورت سے پیسے وصول کرکے اسے خلع کرسکتا ہے اوراگرایسی صور ت نہ ہو تو پھر عورت سے اچھے سلوک کے سات بسر کرنا ضروری ہے جس طرح کہ آیت مجیدہ کے مضمون سے ظاہر ہے

وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اگر ایک عورت کو طلاق د ے کر اس کی بجائے کسی دوسری سے نکاح کرنا چاہو تو پہلی عورت کا مال اس سے چھین کر نہ رکھا لو کہ دوسری اس کی مالک بنے کیونکہ یہ بہتان کی طرح گناہ کبیرہ ہے اوراس سے مراد یہ ہے کہ جب بھی عورت کو طلاق دے تو اس کو دیا ہوا مال اس سے حاصل کرنے کا حقدار نہیں ہے خواہ کسی دوسری عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہو یانہ (مجمع )

مِیْثَاقًاغَلِیْظًا اس سے مراد وہ اہے جو بزبان حال یا مقال بوقت نکاح کیا جاتا ہے کہ عورت کے ساتھ حسن سلوک سے برتاو کیا جائے گا ورنہ احسان اورخوش اسلوبی سے اس کوآزاد کردیا جائے گا اورایسا ہی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے (مجمع البیان )

وَلَاتَنْکِحُوْ عرب جاہلی میں بیٹے باپ کی منکوحہ عورتوں کے ساتھ نکاح خواستگاری کی تو اس نے جواب دیا کہ میں تجھے اپنا فرزند سمجھتی ہوں اورتو اپنی قوم میں نیک معلوم ہوتا ہے لہذااس بارہ میں رسول خدا سے دریافت کرتی ہوں چنانچہ وہ آئی اوردریافت کیا تو یہ آیت مجیدہ نازل ہوئی۔ 

مسئلہ باپ کی منکوحہ بیٹے پر حرام موبد ہے خواہ باپ نے اس کے ساتھ مجامعت کی ہو یا نہ لیکن آیا وہ عورت جس کے ساتھ باپ کے ناجائز تعلقات رہ چکے ہوں اس حکم میں داخل ہوگی تو آیت قرآن کا حکم اس کو ناجائز کہہ رہا ہے کیونکہ نکاح کا لغوی معنی ہے مجامعت پس جس عورت سے با پ مجمامعت کر چکا ہو وہ بیٹے پر حرام ہوگی اوراس میں علمائے امامیہ متفق ہیں۔ 

Post a Comment