Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

Tafseer of Surah Nisa Rukoo No. 12: Significance of Taqwa and Rulings | سورہ النساء ترجمہ و تفسیر

Tafseer of Surah Nisa Rukoo No. 12: Significance of Taqwa and Rulings| سورہ النساء ترجمہ و تفسیر

surah nisa read online sura an nisa pdf an nisa sharif arabic english urdu | سورہ النساء ترجمہ و تفسیر

اللہ کے نام سے جو رحمٰن و رحیم ہے (شروع کرتا ہوں)
يٰأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَآءً وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِ وَٱلأَرْحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً ﴿١﴾
اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایک نفس سے اور پیدا کیا اس (کی جنس) سے اس کی عورت کو اور پیدا کئے ان دونوں سے مرد بہت اور عورتیں اور ڈرو اللہ سے جس کا ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو اور رحم سے (قطع رحمی نہ کرو) تحقیق اللہ تم پر نگہبان ہے ﴿١﴾

تفسیر سورہ النساء  | رکوع نمبر 12 | Surah Nisa Ruku No. 12 Tafseer


یہ سورہ مدنی ہے اوراس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے علاوہ ایک سوچھہتر آیات اورچوبیس رکوع ہیں تفسیر برہان میں عیاشی

تفسیر عَیّاشی قرآن کریم کی احادیث کے ذریعے تفسیر یعنی تفسیر روایی ہے جسے شیعہ مفسر محمد بن مسعود عیاش السلمی السمرقندی معروف بہ عیاشی (متوفی سنہ 320 ھ) نے تحریر کیا ہے۔ عیاشی عصر غیبت صغری میں شیخ کلینی کا ہم عصر شیعہ متقدم محدثین میں سے ہیں اور یہ کتاب شیعوں کے حدیثی منابع میں شمار ہوتی ہے۔



ہے مروی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص سورہ نساءکی ہرجمعہ کو تلاوت کرے وہ فشار قبر سے نجات پائے گا۔ 


رکوع 12 : حکم تقوٰی


یٰٓا یُّھَاالنَّاسُ خداوندکریم نے آیت مجیدہ میں عامتہ الخلق کو تقوی کا حکم دیااوراپنے عمومی احسان کو بطور علت کے پیش فرمایا پہلے پہل نعمت خلق کر ذکر فرمایا اوراس میں شک نہیں کہ نعمت وجود باقی تمام نعمتوں کا سرچشمہ ہے پس جس خالق نے انسان کو کتم عدم سے خلعت وجود مرحمت فرمایا وہ سزاوار ہے کہ اسکی کماحقہ اطاعت کی جائے اوراس کی نافرمانیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ انسان بلاشک عبدہے اوروہ مولی ہے اورعبد کےلئے کسی صورت میں اپنے مولی کی مخالفت جائز نہیں اورعقل کا اٹل فیصلہ ہے کہ شکر منعم واجب ولازم ہوا کرتا ہے پھر تمام انسانوں کو ایک نفس سے خلق فرمانا اس کی کمال قدرت کی دلیل ہے اورحکمت الہیہ یہ ہے کہ کروڑوں نفوس انسانی صفحہ وجود میں آئے لیکن صرف چہرہ کی طرف اگر غورکیا جائے تو ایک بالشت کی لمبائی چوڑائی سے اس کارقبہ زیادہ نہیں اوراسی مختصر سے ٹکڑے میں اس قادر مطلق نے اس قدر لاتعداد لا تحصی نقوش ونشانات تفویض فرمائے ہیں کہ ہر چہرہ دوسرے چہرہ سے ممتاز ہے ہر کی شکل ونفش دوسرے سے الگ ہیں کوئی بڑے سے بڑا کا ریگر اتنے مختصر سے ٹکڑے میں اس قدر مختلف نقوش اورجداجدا اشکال قطعاً پیدا نہیں کرسکتا یہ صرف اسی قادر مطلق اورحکیم بے مثل کی صانعیت کا طرہ امتیاز ہے جوعلی الاطلاق شکر وحمد کا سزاوار ہے صرف چہرہ نہیں بلکہ انسان کے تمام اعضاءکی خصوصیات ایک دوسرے سے جد اگانہ ہوتی ہیں اسی طرح  ہر انسان کا مزاج مختلف اورقوائے باطنیہ میں اختلاف حتی کہ صفحہ ہستی پر قدم رکھنے والوں میں سے کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے ساتھ ہرحیثیت سے ایک جیسا نہیں پایا جاتا اوریہ اس کی قدرت کاملہ اورحکمت شاملہ کی بین دلیل ہے جو انسان کو تقوی کی طرف ہر وقت دعوت دے رہی ہے

حضرت حواکی پیدائش


وَخَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَا اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ حضر ت حوا حضرت آدم کی بائیں جانب کی پسلی سے پیدا ہوئی تھی لیکن اس کے متعلق تفسیر کبیر رازی میں ابومسلم اصفہانی نے اس کی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ منھا سے مراد سے من اوراس کے استشہاد میں متعدد آیات قرآنیہ موجود ہیں چنانچہ فرماتا ہے جَعَلَ لَکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا (یعنی اس نے بنائیں تمہارے نفسوں سے تمہاری بیویاں ) اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ ہرشخص کی بیوی اس کے نفس سے پیدا ہوئی ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ تمہاری بیویاں تمہاری نس سے خدانے پیدا کیں نیز ارشاد فرماتا ہے کہ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلً مِنْھُمْ انہی میں سے ان میں رسول بھیجا اس مقام پریقینا مِنْھُمْ سے مراد مِنْ جِنْسِھِمْ یامن قومھم ہے یعنی خدانے ان کی جنس یاان کی قوم میں سے ان میں اپنا رسول مبعوث فرمایا۔

اس مقام پر شبہ پیش کیا جاتاہے کہ خدافرماتا ہے کہ تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اگر حضرت حواکی تخلیق جد اہوئی ہے تو اسطرح ہوتاکہ تمہیں نفسوں سے پیدا کیا گیا تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ لفظ من اس مقام پر ابتدئے غائب کے لئے ہے اورچونکہ خلقت میں حضرت آدم اول تھے اس لئے کہا گیا کہ تمہاری ابتداءایک نفس سے ہوئی نیز جب خداکی قدرت کاملہ کی شان ہے کہ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کرسکتا ہے توکیا حضرت حوا کی پیدائش کے وقت اس میں وہ قدرت نہ تھی کہ اس کو بھی علیحدہ مٹی سے پیدا کرلیتا حضرت حوا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کرنے کی کونسی ضرورت لاحق تھی اورخواہ مخواہ باپ بیٹی بنا کر ان میں سلسلہ نکاح قائم کرنے میں کونسی مصلحت کار فرماتھی تفسیر برہان میں ہے ایک طویل روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جبکہ زرارہ نے سوال کیاکہ لوگوں کا خیال ہے خدانے حضرت حوا کو حضرت ادم کی بائیں پسلی سے خلق فرمایا تو آپ نے فرمایاسبحان اللہ کیا خدا میں قدرت نہ تھی کہ حضرت حوا کو حضرت آدم کی پسلی کے علاوہ الگ مادہ سے خلق فرماتا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ دشمنان اسلام کو یہ کہنے کا موقعہ دیتے ہیں کہ ادم کانکاح اپنی جزوسے تھا پس خدا ہی ہمارے اوران کے درمیان فیصلہ کرے گا حقیقت یہ ہے کہ خدانے جب آدم کو مٹی سے پیدا کیااورفرشتوں سے اس کا سجدہ کرایا پس اس پر نیند کو غالب کیا اورپھر حضرت حوا کو علیحدہ خلق فرمایا جب حضرت آدم پیدار ہوئے اورحوا کو پاس بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ تو کون ہے تو حوا نے جواب دیامیں مخلوق خدا ہوں اورمجھے بھی اس نے پیدا کیا ہے پس خدانے ان دونوں میں رشتہ نکاح قائم کیامختصرا۔ 

تفسیر صافی میں بروایت عیاشی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ سے سوال کیا گیا کہ خدانے حوا کو کس چیز سے خلق فرمایا آپ نے فرمایا اس بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں راوی کہتا ہے میں نے کہا کہ لوگ توکہتے ہیں کہ حضرت آدم کی بائیں پسلی سے پیداہوئی آپ نے فرمایاوہ جھوٹ کہتے ہیں کیاخداعاجز تھا کہ بغیر پسلی کے اس کو کسی چیز سے پیدا کرتا پھر فرمایامجھے اپنے اباءطاہرین علیہم السلام سے خبر پہنچی ہے کہ جناب رسول خدانے فرمایاکہ خدانے حضرت آدم کو مٹی سے خلق فرمایا اوراس سے جو مٹی بچی اس سے حضرت حوا کو پیدا کی اوربروایت علل بھی آپ سے اسی طرح منقول ہے کہ حضرت آدم کی بقیہ مٹی سے حوا کو پیدا کیاگیانیز ایک روایت ہے کہ بائیں پسلی سے جو مٹی بچی تھی حضرت حوا کو اس سے پیدا کیاگیا فقیہ سے منقول ہے کہ جس روایت میں کہا گیاہے کہ حضرت حوا حضرت آدم کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی وہ روایت صحیح ہے اوراس کا مطلب یہ ہے کہ بائیں پسلی سے بچی ہوئی مٹی سے حضرت حوا کی تخلیق ہوئی بہرکیف جن روایات میں یہ ملتا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کیاگیا ان کا مطلب یہی ہے جو بیان کیا جاچکا ہے پس اس لحاظ سے خلق منھا کا معنی یہی ہوگاکہا س کی بقیہ مٹی سے حوا کو پیدا کیا گیامِنْھَا یعنی مِنْ بَقِیَّةِ تُرَابِھَا اورابو صفہانی کا قول کے مطابق ہو گا من جِنْسِھَا اوران دونوں کامال ایک ہے۔ 

سلسلہ اولاد حضرت آدم


وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً اس مقام پرایک اوراشتباہ ہے اوروہ یہ کہ حضرت آدم کی اولاد کا بھائیوں اوربہنوں مین نکاح ہوا وران سے تمام نبی آدم بالترتیب پیدا ہوئے خاندان عصمت سے بھی اس بارے میں سوالات ہوتے رہے چنانچہ انہوں نے فیصلہ کن جوابات ارشاد فرمائے تفسیر برہان اورتفسیر صافی وغیرہ میں معصومین علیہم السلام سے کافی روایات منقول ہیں حضرت صادق علیہ السلام سوال کیا گیا کہ حضرت آدم کی نسل کس طرح بڑھی اورکہا گیاکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدانے حضرت آدم کو وحی کی تھی کہ اپنے بیٹے اوربیٹیوں کے درمیان رشتہ نکاح قائم کرے اوریہ تمام انسان بھائی بہنوں کے نکاح کی پیداوار ہیں اپ نے فرمایا سبحان اللہ کیا لوگ یہ کہتے ہیں کہ خداکی تمام برگزیدہ مخلوق نبی رسول ولی اورمومن حرام کی پیداور ہیں کیا خداکو قدرت نہ تھی کہ وہ ان کو حلا ل سے پیدا کرتا حالانکہ تمام مخلوق سے اس نے خود حلا ل کاعہد لیا خداکی قسم مجھے بیان کیا گیاہے کہ کسی حیوان کے سامنے اس کی بہن بری شکل میں پیش کی گئی جب وہ اس سے جفتی کرنے لگا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ میری بہن ہے تو فوراس نے اپنا اٰلہ اس کی شرمگاہ سے نکال کیا اورغصہ سے اپنے اٰلہ کو دانتوں سے کاٹ دیاجس سے اس کی موت واقع ہوگئی اوراپ نے فرمایابعض حیوانات کو اپنی ماں کے ساتھ بھی یہ واقع پیش ایا اورجب حیوانا ت کو یہ حالت ہے توانسان اپنی انسانیت اورعلم وفضل کے باوجود اس فعل شنیع کا کیسے مرتکب ہوسکتا ہے ہاں لوگوں کے ایک گروہ نے خاندان نبوت سے منہ پھیرلیا اورانہوں نے یہ چیزیں ان لوگوں سے حاصل کیں جن سے لینے کےلئے و ہ مامور نہیں تھے جس کے نتیجے میں وہ جہالت اورگمراہی کے اس چکر میں مبتلا ہوگئے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ خداوند کریم نے خلقت آدم سے دوہزار برس قبل لوح محفوظ پر قیامت تک کے ہونے والے جملہ احکام ثبت کردیئے اوراس میں تمام فقہا ءعراق وھجاز میں سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے اوراس بہن بھائی کے نکاح کی حرمت پر بھی قلم قدرت جاری ہوگی ہے تورات موسی پر انجیل عیسی پر زبور داود پر اورقرآن حضرت محمد مصطفی پر نازل ہوا اوران میں کسی کتاب میں یہ فتوی نہیں ہے جولوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ مجوسیوں کے قول کو قوت دیتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایاکہ جب حضرت ہابیل کو قابیل نے قتل کردیا تو پانچ سوبرس تک حضرت آدم نے حوا کے قریب جانا چھوڑ دیا اورہابیل کے غم میں روتے رہے اس کے بعد جب مقاربت ہوئی تو خداوند کریم نے آپ کو شیث عطا فرمایا جس کانام ہبتہ اللہ ہے اور یہ انسانوں میں پہلا وصی ہے اس کے بعد حضرت کا دوسرا فرزند یافث پیدا ہوا جب یہ جوان ہوئے تو سلسلہ نسب کو اگے بڑھانے اوربھائی بہنوں کے نکاح سے بچنے کےلئے پہلے خدانے عصر کے بعد بروز خمیس جنت سے ایک حور بھیجی جس کا نام برکہ یامنزلہ تھا اوروحی ہوئی کہ اس کا نکاح شیث سے کیا جائے پھر دوسرے روز عصر کے وقت دوسری حور جنت سے آئی جس کانام برکہ یامنزلہ تھا اوراس کانکاح یافث سے ہوا پھر ان سے سلسلہ نسل جاری ہوا ورپہلے بطن میں شیث کا لڑ کا اوریافث کی لڑکی ہوئی تھی اوران کے باہمی نکاح سے نبی ومرسل پیدا ہوئے وربھائیوں اوربہنوں کا نکاح بالکل غلط ہے اوربے بنیاد بات ہے عیاسی سے ایک روایت منقول ہے کہ حضرت ادم کے چار لڑکے ہوئے اورچاروں حوروں سے ان کانکاح ہواوران سے اولاد ہوئی پھر حوروں کوا ٹھالیا گیا اوران کے بجائے قوم جن کی چار عورتوں سے نکاح اورنسل اس طرح اگے چلی پس انسانوں میں حلم حضرت ادم سے اورجمال حوروں سے اوربدعادات قوم جنات سے آرہی ہیں۔ 

ایک روایت میں ہے فرزند ادم حضرت ہبتہ اللہ شیث کی شادی حور سے ہوئی جس سے چار لڑکے پیدا ہوئے اورحضرت ادم کے دوسرے فرزند کی شادی قوم جن میں ہوئی جس سے چار لڑکیا ں پیداہوئی اورپھر اپس میں رشتے کئے گئے اوراولاد بڑھی ایک روایت میں ہے کہ ہبتہ اللہ کے چار لڑکے حور سے ہوئے وران چار لڑکوں کےلئے ایک مسلمان جن کی لڑکیاں نکاح میں لائی گئیں اوران سے اولاد بڑھی بہرکیف جوروایات بھائیوں اوربہنوں خے باہمی نکاح سے متعلق ہیں وہ اسلامی اصول کے ماتحت قابل تسلیم نہیں اورمجوسی لوگ چونکہ بھائی بہنوں کے نکاح کو جائز سمجھتے ہیں لہذاوہ ا پنے استدلال میں حضرت آدم کی اولاد کے نکاح پجیش کرتے ہیں اورمسلمانوں نے چونکہ خاندان عصمت ودود مان نبوت کا دروازہ چھوڑ دیا تو انہوں نے انہی لوگوں کی باتیں اپنی کتب میں داخل کردیں اوراسی پر عقیدہ جماکر بیٹھ گئے ۔ 

ائمہ معصومین علہیم السلام کی طرف سے منقولہ روایات میں جزوی اختلاف ضرور ہے جو ممکن ہے روات حدیث کے عدم حفظ کا نتیجہ ہو لیکن مجموعی طور پران کاآخری مقصد یہ ہے کہ حضرت آدم کی نسل بھائی بہنوں کے نکاح سے نہیں ہوئی بلکہ خداجو تمام انسانوں کو حلال کا حکم دیتا ہے اورحلال کو پسند کوفرماتا ہے اس نے ابتدائے افرنیش سے انسان کےلئے حلال کا انتظام فرمادیا تھا اوراوہا س سے قطعا عاجز نہیں ہے اس بناءپر یہ شبہ کہ پھر انسان کو پیدائش نفس واحد سے کیسے ہوئی حالانکہ خداتو فرماتا ہے کہ تمام انسان نفس وحید سے پھیلے اوران روآیات کے ماتحت تو حضرت حوا اوران کی بہووں کوبلاتے ہوئے نفوس کثیرہ سے نسل کا چلنا ثابت ہوتا ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ عام طور پر اولاد کی نسبت صرف باپ کی طرف ہوا کرتی ہے اوراس سلسلہ میں عورت کو تبعی حیثیت حاصل ہے بناریں عرف عام کے ماتحت تمام نبی آدم کو صرف باپ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہا س نے تمہیں ایک نفس سے پید اکیا اوراس عرف کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا یایہ کہ من کا منعی ابتداءہے یعنی انسان کی ابتد ءہے یعنی انسان کی ابتداءحضرت آدم سے ہوئی ہے صاحب تفسیر میزان نے کہا ہے کہ بَثَّ مِنْھُمَا کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ بنی آدم صرف ان دونوں سے پیدا ہوئے ہیں اگر نوع انسانی کی تکثیر میں کسی اورکودخل ہوتا تو مِنْھُمَاکا کلمہ تنہانہ ہوتا بلکہ یوں چائیے تھابَثَّ مِنْھُمَا وَمِنْ غَیْرِھُمَا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاد کی بیویاں خواہ کسی خاندان وقبیلہ سے تعلق رکھتی ہوں ان کی اولاد ان کے جدا اعلی کی طرف بلاشک وشبہ منسوب ہوا کرتی ہے جیسے تمام سادات بنی فاطمہ کو حضرت علی ؑوفاطمہ کی اولاد کہا جاتا ہے حالانکہ علی ؑوفاطمہ علیہما السلام کے شہزادوں کی بیویاں خواہ  دوسرے خاندانوں سے تھیں نیز راسخین فی العلم کی تصریحات کے بعد اس قسم کے واوس وقیاسی مواد کا کوئی مقام نہیں۔ 

اب یہ کہنا کہ زمین پر انسان کی پیدائش صرف اتفاقی ہے یابقول لامذہب لوگوں کے کہ انسان کی ابتداءبندرسے ہے اوررفتار زمانہ سے ترقی کرکے انسانیت کی نوبت آئی جیساکہ ایک دشمن اسلام ڈارون کا قول مشہور ہے خداوند کریم نے آیت مجیدہ مین اس کو کھلے لفظوں مین باطل کیا اورخلقت انسانی کو اپنااحسان قرار دیا جس سے اپنی قدرت کاملہ اورحکمت شاملہ کو پیش فرماتے ہوئے تمام انسانوں کوتقوی کی دعوت دی نوجوانوں کونئی پودڈارون جیسے لامذہب دشمن خداکی باتیں سننے کی بجائے خدائے حکیم کی پرراز حکمت کلام سے واقفیت حاصؒ کریں تاکہ ان کے دلوں سے غلط عقیدت کا زنگ رفع ہواورنور ایمان سے منور وحلات ور اسلام سے سرشار ہوں جو اپنے آپ کوا دمی کہلاتے ہیں یعنی اولاد آدم انکے لئے قرآن نصیحت ہے البتہ جولوگ ڈارون کے ہم عقیدہ ہو کر اپنے اپ کو بندر کی اولاد سمجھتے ہوں وہ قرآن سے کی استفادہ کریں گے ہم نے اس عقیدہ کو بطلان کےلئے تفسیرکی تیسری جلد ص۷۳ میں وضاحت کی ہے تَسَآئَ لُوْنَ بِہ وَالْاَرْحَامَ ارحام کا عطف یاتو بہ کی ضمیر مجرور پر ہے جوکہ محلا منسوب ہے اوریالفظ اللہ پر ہے اوراِتَّقُوْ ا کا مفعول ہے پہلی صورت میں معنی یہ ہوگاکہ ڈرواس اللہ سے جس کا ایک دوسرے کوواسطہ دیتے ہوااورارحام کا واسطہ بھی دیتے ہو جس طرح عرب کہتے تھے۔ 

اُنْشِدُکَ بِاللّٰہِ وَبِالرَّحْمِ اَنْ تَفْعَلْ کَذَا تجھے خدا قرابت کا واسطہ ہے کہ فلاں کام کرو اوردوسری صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ڈرواس اللہ سے جس کا ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو کہ اس کی اطاعت کرو اورنافرمانی نہ کرو اورڈروارحام کی قطع تعلقی سے یعنی قطع رحمی نہ کرو جناب رسالتمابؐ سے مروی ہے کہ خدافرماتا ہے میں رحمن ہوں اورمیں نے رحم کو اپنے نام سے مشتق کرکے اس کا نام رکھا ہے جس نے صلہ رحمی کی اس نے میرے ساتھ رابطہ قائم کیا اورجس نے قطع رحمی کی وہ مجھ سے قطع ہوا صلہ رحمی دوطرح سے ہوتی ہے ایک رشتہ ناطہ ایک دوسرے کا قبول کرنا اوردوسرے بصورت فقروفاقہ ایک دوسرے کی دستگیری کرنا (مجمع البیان) تفسیر برہان میں ابن شہر آ شوب سے مروی ہے کہابن عباس نے کہاکہ آیت محمد وآل محمد کے حق میں اُتری ہے اورارحام سے مراد رسول کے قریبی ہیں کہ ہر سبب ونسب قیامت کے دن منقطع ہوگا سوائے جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سبب ونسب کے سبب سے مراد جو رسول خدا کے دوست ومولی ہیں۔ 

Post a Comment