Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

Surah Nisa | Understanding the Concept of Diverse Marriage | سورہ النساء | تعدد نکاح

Surah Nisa | Understanding the Concept of Diverse Marriage | سورہ النساء | تعدد نکاح 

Surah Nisa | Understanding the Concept of Diverse Marriage | سورہ النساء | تعدد نکاح


وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِى ٱلْيَتَامَىٰ فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلاَّ تَعُولُواْ ﴿٣﴾ اور اگر ڈرو کہ نہ انصاف کرسکو گے یتیموں کے حق میں تو نکاح کرو وہ جو پاکیزہ ہوں تمہارے لئے عورتوں میں سے دو دو تین تین اور چار چار پس اگر ڈرو کہ نہ عدل کرسکو گے تو ایک یا وہ جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ یہ زیادہ قریب ہے کہ نہ ظلم کرو ﴿٣﴾ وَآتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْساً فَكُلُوهُ هَنِيئاً مَّرِيئاً ﴿٤﴾ اور دو عورتوں کو ان کے حق مہر (جو اللہ کا) عطیہ ہیں پس اگر بخوشیِٔ نفس تمہیں اس سے کوئی شے دے دیں تو اسے کھاؤ طیّب خوش گوار ﴿٤﴾
وَاِنْ خِفْتُمْ اس آیت کے نزول اورماقبل سے ربط اورمعنی سے متعلق کئی اقوال ہیں عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص کسی یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اوراس کے مال وجمال پر دلددہ ہو کران سے نکاح کرتا تو ان کو شان موافق حق مہر نہ دیتا تھا پس اس آیت میں ان کو منع کیا گیا کہ ایسا مت کرو بلکہ اگر ان سے نکاح کرو تو ان کو حق پورا دو ورنہ ان کے علاوہ چار تک نکاح میں لاسکتے ہو اورتفسیر علمائے امامیہ میں یہی مروی ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ اس کااتصال اس آیت سے اس طرح ہے۔ 
  • وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآئِ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِیْھِنَّ وَمَایُتْلٰی عَلَیْکُمْ فیِ الْکِتٰبِ فِیْ یَتٰمٰی النِّسَآئِ اللَّا تِیْ للاَ تُوْ تُوْ انَھُنَّ مَاکُتِبَ لَھُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْکِحُوْاھُنَّ فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَّاتُقْسِطُوْ افِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا الخ ترجمہ آپ سے یہ لوگ عورتوں کے متعلق فتو ی دریافت کرتے ہیں تو فرمادیجئے کہ اس بارے میں اللہ تم کو فتوے دیتا ہے اوروہ چیز جوتم پر کتاب میں یتیم عورتوں کے متعلق تلاوت کی جاتی ہے جن کو تم پورا حق مہر ادا نہیں کرتے اورچاہتے ہو اکہ ان سے نکاح کریں پس اگر تم کو خوف ہو کہ یتیم عورتوں کے متعلق انصاف نہ کرسکو گے تو باقی عورتوں میں سے چار تک نکاح کر لو ۔ 
  • (۲) دستور تھا کہ لوگ چار پانچ بلکہ دس تک شادیاں کرلیتے تھے اورکہتے تھے مجھے کیا پرواہ ہے اگر میرا اپنا مال ختم ہوجائے گا تو فلاں یتیم کا مال استعمال کریں گے جو ہمارے پاس رہا ہے پس خدانے منع فرمایاکہ اگر تمہارے پاس اپنے مال میں گنجائش نہ ہوتو بجائے اس کے کہ یتیموں کے مال پر دست درازی کرو نکاح میں تخفیف کرو اوراپنی مالی وسعت کے ماتحت ایک دوتین آخر چار تک شادیاں کرلو ۔ 
  • (۳)۔  لوگ یتیموں کے مالوں میں احتیاط کرتے تھے لیکن عورتوں میں عدل کی پرواہ نہ کرتے تھے پس حکم ہواکہ جس طرح یتیموں کے مال کے متعلق پوچھ گچھ کرتے ہوا اوریتیموں کے مالوں میں انصاف نہ کرسکنے کا تمہیں ڈرررہتا ہے تو عورتوں کے نکاح کے متعلق بھی عدم انصاف کا خوف کیا کرو اوربصورت خطرہ صرف ایک عورت پر اکتفاکیا کرو۔ 
  • ( ۴)  یتیموں کے مال کے در کی وجہ سے یتیم پروری سے گریز کرتے تھے تو حکم ہوا کہ یتیموں کے مال میں عدم انصاف سے ڈرتے ہو تو زناکاری اوربدمعاشی سے بھی تو خوف کرلواورحلال میں سے حسب استطاعت ایک یادو یاتین یاچار تک نکاح کرسکتے ہو بشر طیکہ انصاف کرسکو۔

تعدد نکاح

فَانْکِحُوْامَاطَابَ آیت مجیدہ میں مرد کےلئے بصورت استطاعت وامکان انصاف چار تک آزاد عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے چنانچہ تفسیر برہان میں بروایت محمد بن سنان حضرت امام رضاعلیہ السلام نے اس کی توجہیہ اس طرح فرمائی ہے کہ مرد کےلئے چارتک عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے اورعورتوں ایک سے زیادہ مردوں کی ممانعت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد اگر چار شادیاں بھی کرے تو ہر صورت میں بچہ باپ کی طرف منسوب ہوتا ہے اوراگر عورت کےلئے ایک سے زیادہ مرد جائز ہوں تو معلوم نہ ہوسکے گاکہ یہ بچہ کس کا ہے پس نسب میراث اورتعارف فوت ہوجائیں گے۔  الحدیث
قرآن کی تصریح اورتمام اہل اسلام کی کتب احادیث میں روایات حد تواتر تک پہنچتی ہیں کہ مرد ایک سے زیادہ یعنی چار تک بیک وقت نکاح کرسکتا ہے لیکن دور حاضر میں عورت کی آزادی کا تصور اورعورت ومرد کی مساوات کا مسئلہ جو غیر اسلامی تہذیب کی پیداوار ہے اس نے مسلمانوں کی نئی پود کو ابھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس کی بدولت مغربیت زدہ اہان قرآنی تعلیم سے روز افزوں دوری اختیار کرتے ہوئے اسلام سے کھلم کھلا بغاوت کرنے پر تل گئے ہیں اوراپنے خیالات پرجمے ہوئے ہین ہر نظریہ کو اسلام کانام دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اورآیات قرانیہ کی جوڑتوڑ کرکے اپنے نظریہ ہر مسلمان پر ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں اورجناب رسالتمابؐ کافرمان بجاہے بدٰاالاسلام غَرِیْبًا وَسَیعُوْدغَرِیْبًا اسلام کی ابتداءبھی غربت سے ہوئی اوراس کی انتہابھی غربت ہوگی اورسچا ہے کہ جسطرح دور حاضر میں اسلام غربت میں ہے اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا دین عالم غربت میں نہیں ہر دین کے پرستار اس کے قوانین کے محافظ ہیں لیکن اسلام کی پرستاری کادعوی کرنے والے اس کے قوانین کو بگاڑنے اوراپنے من مانے مسائل کو ان کی جگہ رکھنے میں خدمت اسلام سمجھتے ہیں ہم نے مسئلہ زیر بحث کو تفسیر کی تیسری جلد ص100 پر زیادہ وضاحت سے بیان کیا ہے۔ 
اَلَّاتَعْدِلُوْ یعنی ا گر زیا دہ عورتوں کے درمیان عدل وانصاف نہ کرسکو تو پھر صرف ایک عورت سے نکاح کرو یاباقی کنیزیں رکھ لو تفسیر برہان میں کافی سے مروی ہے ایک دفعہ ابن بی العوجاءکی ہشام بن حکم سے بات چیت ہوئی ابن ابی العوجاء نے دریافت کیا کہ خداحکیم نہیں ہشام نے کہابے شک وہ حکیم ہے اس نے یہی آیت پڑھی اورکہاکیا عورتوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے ہشام نے ہاں میں جواب دیا تو ابن ابی العوجاءنے قرآن کی ایک اورآیت پڑھی وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْااَنْ تَعْدِلُوْ ابین النِّسَآئِ (ترجمہ) اورہر گز تمہاری طاقت نہیں کہ عورتوں کے درمیان عدل کرسکو پس اس نے کہاکیا اس آیت اورراس آیت میں تناقص نہیں ہے ہشام کہتا ہے میں لاجواب ہوگیا اورمدینہ میں پہنچ کر حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا آپ نے فرمایا ہشام نہ حج کا زمانہ اورنہ عمرہ کا وقت کیسے آناہوا میں نے ابن ابی العوجا کا سوال پیش کیا آپ نے فرمایا جہاں عورتوں کے درمیان عدل وانصاف کے قائم رکھنے کا حکم ہے اس سے مراد ہے کہ نان ونفقہ میں ان کے درمیان انصاف قائم رکھو اورجہاں فرماتا ہے کہ تم ان کے درمیان عدل کرسکتے ہی نہیں اس سے مراد ہے کہ تم ان کے درمیان محبت میں مساوات نہیں کرسکتے پس ہشام نے جواب ابن ابی العوجا ءکو اکر سنایا تو اس نے کہاکہ یہ تیری طرف سے نہیں ہے ایک اورروایت میں ابوجعفر احول اورایک زندیق کے درمیان یہی سوال وجواب مروی ہیں آج کل جو لوگ تعدد نکاح کے خلاف علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں وہ عدل عدل کی رٹ لگاتے ہیں اوراس سے مفہوم لیتے ہیں محبت میں مساوات حالانکہ جس عدل کاعورتوں کے درمیان قائم رکھنے کاحکم ہے وہ نان ونفقہ مں عدل ہے نہ کہ محبت میں اوریہ تمام مسلمانوں کا مسلمہ فتوی ہے۔ 
فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ یعنی عورت کا مہر وبالینا غصب ہے اوراس کا کھانا حرام ہے ہاں اگر وہ خود پورا حق مہر یااس کا کچھ حصہ اپنی خوشی سے وا پس دے دیں تو اس کا کھانا طیب ومبارک ہے۔ 

لطیفہ

 تفسیر مجمع البیان میں بروایت کتاب عیاشی منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت امیر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے پیٹ کے درد کی شکایت پس آپ نے دریافت کیا کہ کیا تیری بیوی بھی ہے؟ تو اس نے ہاں میں جواب دیا آپ نے فرمایا اس کے ذاتی مال سے کچھ لے جس کو وہ خود بخوشی ورضاتھے دے دے اوراس کا شہد خرید کرلے پھر اس میں بارش کا پانی ملادے اوراس کو پی جاکیونکہ خدااپنی کتاب میں فرماتا ہے وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَائً مُبَارَکًا ہم نے آسمان سے مبارک پانی اُتارا یہ بارش کے پانی کی تعریف ہے اورشہد کے متعلق فرمایا یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْ نِھَا شَرَابµ مُخْتَلِف اَلوانُہفِیْہِ شِفَائ لِلنَّاسِ ان کے بطون سے پیچھے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اوراس میں لوگوں کےلئے شفاہوتی ہے اورعوروں کے مال کے متعلق فرمایا فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْیئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہھَنِٓیْئًا مَرِیْآ یعنی بخوشی نفس تمیں اس میں سے کوئی چیز دے دیں تو اس کو کھاؤ کہ تمہارے لیے طیب اورخوشگوار ہے پس جب برکت شفااورخوشگوار تینوں چیزیں مل جائیں گی تو انشاء اللہ تجھے شفاہو گی اس شخص نے حضرت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یہ نسخہ استعمال کیا وربحکم خداشفایاب ہوا۔ 
مسئلہ: بعض لوگوں نے اس آیت مجیدہ سے وجوب نکاح کا حکم استنباط کیا ہے کیونکہ فَانْکِحُوْ اامرہے اوریہ وجوب کےلئے ہوتا ہے لیکن صاحب مجمع البیان نے فرمایا ہے کہ دلیل کے ذریعے ظاہر سے عدول کیا جاسکتا ہے اوردلیل اپنے مقام پر قائم ہوچکی ہے کہ نکاح واجب نہی ہاں اگر حرام میں واقع ہونے کا ڈر ہواوراستطاعت بھی ہو تو ا س صورت میں واجب ہوگا ورنہ مستحب اورسنت ہے۔ 

Post a Comment