Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

surah imran | ruku no 11 | toheed | daleel wajood e khuda | سورہ عمران | رکوع نمبر 11 | توحید | دلیل وجود خدا

surah imran | ruku no 11 | toheed | daleel wajood e khuda | سورہ عمران | رکوع نمبر 11 | توحید | دلیل وجود خدا



إِنَّ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَاوَاتِ وَٱلأَرْضِ وَٱخْتِلاَفِ ٱلْلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ لَـاۤيَاتٍ لِّـأُوْلِى ٱلأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾
 تحقیق پیدا کرنے میں آسمانوں اور زمین کے اور اختلاف شب و روز میں (البتہ توحید کی) دلیلیں ہیں صاحبان عقل کےلئے ﴿١٩٠﴾
ٱلَّذِينَ يَذْكُرُونَ ٱللَّهَ قِيَاماً وَقُعُوداً وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ ٱلسَّمَاوَاتِ وَٱلأَرْضِ رَبَّنَآ مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿١٩١﴾ 
جو یاد کرتے ہیں اللہ کو قیام و قعود میں اور پہلؤں کے بل اور سوچتے ہیں آسمانوں اور زمینوں کی خلقت کے بارے میں (پھر کہتے ہیں) اے رب تو نے یہ نہیں پیدا کیا بے سود، تو پاک و منزہ ہے پس ہمیں بچا عذاب دوزخ سے ﴿١٩١﴾
رَبَّنَآ إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ ٱلنَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ ﴿١٩٢﴾
 اے رب تو جسے داخل کرے آگ میں تو تحقیق تو نے اسے ذلیل کیا اور نہ ہوگا ظلم کرنے والوں کا کوئی مددگار ﴿١٩٢﴾
رَّبَّنَآ إِنَّنَآ سَمِعْنَا مُنَادِياً يُنَادِى لِلإِيمَانِ أَنْ آمِنُواْ بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ ٱلأَبْرَارِ ﴿١٩٣﴾
 اے رب ہمارا تحقیق ہم نے سُنا ایک بلانے والا جو بلاتا ہے ایمان کی طرف کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر پس ہم ایمان لائے اے رب پس بخش دے ہمارے گناہ اور دُور کر ہم سے ہماری برائیاں اور ہمیں لے لے ساتھ نیکوں کے ﴿١٩٣﴾
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ ٱلْمِيعَادَ ﴿١٩٤﴾
 اے رب ہمارا اور دے ہمیں وہ جو تو نے ہم سے وعدہ فرمایا بذریعہ اپنے رسولوں کے اور ہمیں ذلیل نہ کرنا بروز قیامت تحقیق تو نہیں خلاف وعدہ کرتا ﴿١٩٤﴾
فَٱسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّى لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ بَعْضُكُم مِّنْ بَعْضٍ فَٱلَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُواْ فِى سَبِيلِى وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لَـأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَـأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا ٱلأَنْهَارُ ثَوَاباً مِّنْ عِنْدِ ٱللَّهِ وَٱللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ ٱلثَّوَابِ ﴿١٩٥﴾
 پس ان کی دُعا قبول کی ان کے رب نے کہ تحقیق میں نہیں ضائع کرتا تم میں سے کسی عامل کا عمل خواہ مرد ہو یا عورت تم ایک جیسے ہو پس وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور اذّیت دیئے گئے میرے راستہ میں اور لڑے اور مارے گئے البتہ ضرور میں دُور کروں گا ان سے ان کے گناہ اور ان کو داخل کروں گا ایسے بہشتوں میں کہ بہتی ہوں گی ان میں نہریں یہ بدلا اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کے نزدیک بہترین بدلا ہے ﴿١٩٥﴾
لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فِى ٱلْبِلاَدِ ﴿١٩٦﴾
 نہ دھوکا دے تم کو آمدورفت ان کی ہو کافر ہیں شہروں میں ﴿١٩٦﴾
مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ ﴿١٩٧﴾
 یہ نفع تھوڑا ہے پھر ان کی بازگشت جہنم ہے اور یہ بُرا ٹھکانہ ہے ﴿١٩٧﴾
لۤكِنِ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَوْاْ رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا ٱلأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِ ٱللَّهِ وَمَا عِنْدَ ٱللَّهِ خَيْرٌ لِّلْـأَبْرَارِ ﴿١٩٨﴾
 لیکن وہ لوگ جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے ان کے لئے باغات ہیں کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ان میں مہمانی ہے اللہ کی جانب سے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے بہتر ہے نیکوں کے لیے ﴿١٩٨﴾
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَمَآ أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَآ أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لاَ يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ ٱللَّهِ ثَمَناً قَلِيلاً أُوْلۤـٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ﴿١٩٩﴾
 اور تحقیق بعض اہل کتاب ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور جو کچھ نازل ہوا تمہاری طرف اور جو کچھ نازل ہوا ان کی طرف خشوع کرتے ہوئے اللہ کے لیے نہیں لیتے آیات خداوندی کے بدلے قیمت تھوڑی ان لوگوں کے لئے ان کا اجر ہے نزدیک ان کے رب کے تحقیق اللہ جلدی حساب لینے والا ہے ﴿١٩٩﴾
يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ ٱصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٢٠٠﴾
 اے ایمان والو! صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو اور ثابت قدم رہو اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پا جاؤ ﴿٢٠٠﴾

رکوع ۱۱ ۔ سورہ آل عمران |    surah imran | ruku no 11| توحید


ان فی اختلاف تفسیر برہان میں ہے من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرة اعمی کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جس شخص کوآسمان وزمین کی خلقت شب وروز کا اختلاف اورگردش فلک اورشمس وقمر کی رفتار وغیرہ یہ نہ بتاسکیں کہ ا ن کے پیچھے ایک بڑی قوت کا رفرماہے تو وہ آخرت میں اندھا اورراہ گم کردہ محشور ہوگا۔ 

۲۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے اپنے دلوں کو فکر سے بیدار کرو ، رات کو سجدہ میں بسر کرواوراللہ سے ڈرو۔

۳۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ تمام عبادتوں سے بہتر عبادت ہے اللہ اوراس کی قدرت میں تفکر کرنا۔

۴۔  امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ عبادت ونماز روزہ کی زیادتی کانام نہیں ہے بلکہ عبادت توحید میں فکر کا نام ہے

۵۔  جناب رسالتمابؐ سے منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک اس شخص کی قدروت منزلت زیادہ ہے جوکھائے کم اورفکر زیادہ کرے اور مبغوض ترین انسان وہ ہے جو زیادہ کھاکرسونے میں گزاردے اورفرمایا کہ خلق خدامیں تفکر کیا کرو اورخود ذات خدا میں فکر نہ کرو کیونکہ تمہارے بس سے باہر ہے ۔ الحدیث

۶ ۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے دریافت کیاگیا کہ بہتر انسان کون ہے تو آپ نے فرمایا جس کا بولنا ذکر خاموشی فکر برائے عبرت ہو۔

۷ ۔ حضرت رسالتمابؐ نےارشاد فرمایاکہ اپنی انکھوں کو عبادت سے حصہ دیا کرواوروہ یہ کہ قرآن میں نظر وااورپھر اس میں فکر کرو اورعجائبات دیکھ کر ان سے عبرت حاصل کرو۔ 

۸۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ دومختصر رکعتیں جو فکر سے پڑھی جائیں وہ بددلی کی رات بھر کی نماز سے بہتر ہیں ۔ حضرت لقمان تنہائی پسند تھے چنانچہ ایک دفعہ ان سے کہاگیا کہ اپ تنہابیٹھا کرتے ہیں اگر لوگوں کےس اٹھ بیٹھیں تو وہ آپ کی دل لگی کا باعث ہوگا تو آپ فرماتے تھے کہ تنہائی میں بیٹھنا فکر کےلے زیادہ مفید ہے اورفکر کی زیادتی جنت کاراستہ ہے ان احادیث میں فکر سے مراد توحید کے بارے میں فکر ہے۔ 

۹ ۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں حمد اس اللہ کے لئے جس نے اپنی خلق کو اپنے وجود کی اوراپنی حادث مخلوق کو اپنی ازلیت کی دلیل قرار دیا اورمخلوق کی ایک دوسری سے مشابہت کو اس پر دلیل بنایاکہ اس کی شبیہ ومثال کوئی نہین مشاعر اس کو چھو نہیں سکتے اورپردے اس کو ڈھانپ نہیں سکتے کیونکہ یہ واضح بات ہے کہ صانع اورمصنوع دوالگ چیزیں ہیں حاد محدود سے جدا ہے اوررب ومربوب میں فرق ہے وہ یکا وتنہا ہے بغیر تاویل عدد کے وہ خالق ہے بغیر حرکت وکوفت کے سمیع ہے بغیر الہ کے بصیر ہے بغیر انکھ سے ورشاہد ہے بغیر مس کے ہرشے سے جدا ہے لیکن نہ ساتھ دوری مسافت کے ظاہر ہے لیکن نہ یہ کہ دیکھنے میں اسکتا ہے ا ورباطن ہے نہ اس لئے کہ باریکی کی صفت اس میں اپائی جائے چیزوں سے الگ اہے کہ اس کا قہر وغلبہ ہر شے پر حاوی ہے اوردوسری چیز یں اس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے خاضع وخاشع ہیں جس نے اس کی وصف کی صفت کو ذات سے الگ مانا تو گویا اس نے حدبندی کی اورجس نے حد بندی کی گویا اس نے اس کو محدود جانا ورجس نے اس کو محدود جانا اس نے اس کی ازلیت کی نفی کی جویہ کہے کہ وہ کیا ہے تو گویا وہ اس کو موصوف جانتا ہے یعنی صفت کو ذات سے الگ تصور کرتا ہے جو یہ کہے کہ وہ کہاں ہے تو وہ گویا اسے مکان کاپابند سمجھتا ہے اوروہاسوقت سے عالم ہے جب معلوم کا وجود نہ تھا وہ اس وقت سے رب ہے جب موبوب کوئی نہ تھا وروہ اس وقت سے قادر ہے جبکسی مقدور کا صفحہ ہستی پر نام ونشان نہ تھا۔ 

۰۱ مجمع البیان میں تفسیر ثعلبی سے مروی ہے کہ جناب رسالتمابؐ رات کو اٹھ کرمسواک کرکے یہ آیات پڑھا کرتے تھے اورنیز آپ سے مروی ہے کہ ویل ہے اس شخص کےلئے جس نے ان آیتوں کو صرف منہ میں چبایا اورفکر نہ کیا۔ 

دلیل بروجود خدا


انسان جب اسمان وزمین کے وجود اوران میں نت نئے حادث ہونے والے عجائب وغرائب کا مطالعہ کرے تو یقین پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز حوادث کامحل ومقام ہے وہ خود بھی حادث ہے تو ماننا پڑے گا کہ اسمان وزمین کا وجود ازلی نہین بلکہ ایک وقت میں یہ نہ تھے پھر ہوگئے لہذا ضروری ہے کہ ان کو کسی نے پیدا کیا ہو پس ان کا حدوث ووجود ان کے خالق کے وجود کی دلیل ہے جو قادر ہے اوران کے وجود میںعجیب وغیرب مصالح اوران کانظم ونسق خالق کے علم وحکمت کی ناقابل تردید برہان ہے اورنیز ان احدوث خالق کےقدم کا پتہ دیتا ہے کیونکہاگر وہ بھی حادث ہو تو اس کے لئے ایک اورموجد کی ضرورت ہوگی اوریہ سلسلہ غیر متناہی چلے گا پس انتہا ایک ایسے موجد پر وہ گی جو قدیم ہے

اسی طرح شب ورز کا اختلاف بھی وجود خدا کی دلیل ہے کیونکہ ایک مقدار معین پر دن ورات کا تعاقب جس سے کبی یہ اگے پیچھے نہین ہوسکتے پھر بلحاظ موسم ایک کا بڑھنا اوردوسرے اکاگھٹنا اس طرح کہ بڑھنے والے کی زیادتی گھٹنے والے کی کمی سے برابر بنی ہوتی ہے اوریہ سلسلہ کبھی کم وبیش نہین ہوتا پس یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا صانع قادر حکیم دانا وبینا ہے

نہایت مناسب ہے کہ اس مقام پر دور حاضر کےایک مفکر کے نتائج فکر کو پیش کردوں چنانچہ ایک پروفیسر اس عنوان پرکہ کیا زمین پر زندگی کی نمودا محض اتفاق ہے لکھتا ہے۔

عصر جدید سائنس کا دور ہے اگر چہ افتاب سائنس ابھی طلوع ہوا ہے تاہم نئی دریافت یہ تصدیق کرتی ہے کہیہ دنیا کا تخلیقی کار نامہ ایک حکیم مطلق یعنی خالق وپرودگار کا ہی موہون منت ہے ڈارون کے بعد کی اس ایک صدی میں انسان نے عظیم الشان ایجاد دات کی ہیں ارہم ایک ایسے سرچشمہ علم سے بہرہ یاب ہوئے ہیں جہاں سائنس اپنےعجز کے اقرار کے ساتھ خدا پر ایمان کو مستحکم کرتی ہے ورہم خدا کی حقیقت سے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں مشاہدہ قدرت اورجدید سائنسی علوم ریاضی طبیعات جغرافیہ فلسفہ اورعلم حیوانات وغیرہ سے ان چنددلائل نے میرے خدا پر ایمان کو تازہ کردیا ہے شائد اپ بھی ان سے اتفاق کریں۔ 

حساب کے لافانی قانون کی رو سے ہم ثابت کرتے ہیںکہ ہماری یہکائنات ایک عظیم انجیئر کے ہاتھوں سے ہی پایہ تکمیل کوپہنچ سکتی تھی فرض کیجئے اپ دس سکے لے کر ان پر ترتیب وار ایک سے دس تک ہندسے لکھ دیتے ہیں اور انہیں ملانے کے بع جیب میں ڈال لیتے ہیں اب اپ انہیں اس ترتیب سے نکالنے کی کوشش کریں کہ پہلے نمبر ایک ائے پھر نمبر دو پھر علی الترتیب نمبر دس نکلے اورہر سکہ کو نکالنے کے بعد اسے جیب میں ڈال کرملاتے رہیں حساب کی رو سے ہم جانتے ہیں کہان دس سکوں میں سے نمبر ایک کو پہلی دفعہ نکالنےکی کوشش کریں تو اس کاامکان ۱۰۱ ہے اسی طرح ایک دوتین کو ترتیب وار نکالنے کےلئے ہزار میں سے ایک دفعہ کا امکان ہے لیکن ایک سے دس تک تمام سکوں کو ترتیب سے نکالنے کےلئے امکان کس حد تک ہے شاید ایک ارب دفعہ مٰں صرف ایک اس توجیہہ سے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیںکہ ہماری زمین پر زندگی برقرار رکھنے کےلئے کڑی شرائط کا ہونا ضروی ہے البتہ ان میں توازن وتناسب ناگزیر ہے زمین اپنے محور پرا یک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگا تیہے اگر یہ سومیل کی رفتار پر اجائے تو ہمارے دن رات موجودہ وقت سے دس گنابڑھ جائیں گے اورسورج کی تمازت دنیا کے سبزے کی پتی پتی کو جلا کرراکھ کردے گی اگر کوئی سخت جان کونپل بچ بھی گئی تو یخ بستہ طویل رات اسے ختم کردے گی۔ 

سورج ہماری زندگی کےلئے ایک لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے اس کی اوپر کی سطح کادرجہ حرارت بارہ ہزار فارن ہیٹ ہے ہماری زمین اس سے اتنی دور ہے کہ یہ ازلی ابدی اگ کی بھٹی ہمیں مناسب گرمی دیتی ہے اگر یہ اس سے ادھی حرارت دے تو ہم برفاب ہوجائیں اوراگر یہ اس سے ادھی حرارت تیز کردے تو کباب ہوجائیں۔ 

ہماری زمین ۳۲ در جہ عمود سے جھکی ہوئی ہے اسی سے ہماے موسم بنتے ہیں اگر یوں نہ ہوتا تو سمندروں سے اٹھنے والے بخارات شمالا جنوبا ہر سمت میں برف کے براعظم بنادیتے اگر چاند موجود ہ فاصلہ سے صرف پچاس ہزار میل دور ہوتا تو سمندروں میں اتنا شدید مد وجذر پیدا ہوتا کہ دو روز میں سارے براعظم طوفان نوح کی داستان دہراتے حتی کہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی غرقاب ہوجاتیں اگر سطح زمین کا چھلکا صرف دس فٹ موٹا ہوتا تو یہاں اکسیجن نہ مل سکتی جس کے بغیر زندگی موت بن جاتی اگر سمندرموجودہ گہرائی سے زیادہ عمیق ہوتا تو کاربن ڈائی اکسائڈ اوراکسیجن اتنے زیادہ صرف ہوجاتے کہ نباتات کا قلع قمع ا ہوجاتا اوراگر زمین کے گرد فضا کا ہالہ اتنا کثیف نہ ہوتا تو کائنات میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں ٹوٹنے والے شہاب ثاقب زمین کے چاروں طرف اگ لگادیتے اسی طرح اوربیسوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ کروڑ میں سے ایک مرتبہ بھی یہ امکان نہیں ہے کہ ہماری زمین پر زندگی کی نمود محض اتفاق ہے بلکہ اسے ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق تیار کیا گیا ہے اوریہ سکیم کسی حکیم ودانا وعقل کل کے وجود پر دلالت کرتی ہے (یعنی خالق ) اس کے بعد اوردلیلیں بھی ہیں لیکن یہاں صرف اسی پر اکتفاکی جاتی ہے۔ 

ربنا انک:اس میں شک نہیں کہ جو شخص عذاب خدا میں گرفتار ہواس سے بڑھ کر ذلیل کون ہوسکتا ہے اورصرف جہنم میں داخل ہونا ذلت ورسواءکےلئے کافی ہے اگر چہ پھر شفاعت کی بدولت اسے نکال بھی لیا جائے جس طرح کہ مجمع البیان میں صحیح بخاری سے منقول ہے کہ حضور نے فرمایا بعض گناہ گاروں کو شفاعت پہنچے گی اورجہنم سے نکال لئے جائیں گے اوراہل جنت ان کو جہنمی کے نام سے پکاریں گے ایک اورروایت میں ہے کہ جب ان کوجہنم سے نکالاجائے گا تو کو ملے کی طرح سیاہ ہوچکے ہوں گے پس ان کو ایک نہر میں ڈالا جائے گا جسے نہر حیات کہتے ہیں تو ان کاگوشت پوست نیااگ آئے گا۔ 

ربنا اننا:امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ منادی سننے والے حضرت علی علیہ السلام تھے البرہان

ان آیات کے نزول کے متعلق مرو ی ہے کہ جب حضرت ابو طالب کے انتقال کے بعد اپ کو ہجرت کا حکم ہوا تو اپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلایا اورفرمایا کہ پردہ داروں کولے انا صبح کو جب قریش ناکام واپس گئے تو حضرت علی پردہ داروں کو لیکر روانہ ہوئے۔ 

روانہ ہوئے جب ابوسفیان کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے ایک حبشی غلام کو عقب میں روانہ کیا تاکہ حضرت علیؑ کو مستورات کے ہمراہ لے جانے سے روکے چنانچہ جب یہ حبشی غلام پہنچا تو آپ نے اس کو ہٹ جانے کو کہالیکن یہ باز نہ آیا پس اپنے ایک جنبش یداللہی سے اسے واصل جہنم کیا اس کے بعد ابوسفیان خود آیااوراس نے اپنے غلام کو مقتول پایا پھر حضرت علی کو مستورات کے لئے جانے سے منع کیا حضرت علیؑ اوران کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی آخر کار ابوسفیان ناکام واپس چلا گیا اورحضرت علیؑ اورانکے ہمراہیوں نے چونکہ جنگ وجدال کی وجہ سے خستہ ہوچکے تھے لہذا ایک مقام پر قیام فرمایا اورتمام رات اللہ کی عبادت میں مصروف رہے کوئی کھڑے ہوکر کوئی بیٹھ کراورکوئی پہلو کے بل لیٹ کر حمدوشکر خداوند بجالاتے رہے ورآخر کار بخیروعافیت داخل مدینہ ہوئے اورانکے پہنچنے سے پہلے جبرئیل یہ آیات لے کر نازل ہوااورحضورؐ نے پڑھ کرسنائیں حضرت علیؑ کے ہمراہ عورتوں میں سے جناب فاطمتہ الزہراءفاطمہ بنت اسد اورفاطمہ بنت زبیر تھیں اوربعد میں ام سلمہ بھی پہنچ گئی تھیں۔ 

فاستجاب:تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ حضرت ام المومنین ام سلمہ ؓ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی تھی کہہجرت کے موقعہ جپر صرف مردوں کا ذکر کیا جاتا ہے حالانکہ ہم عورتوں نے بھی ہجرتکی لیکن ان کاکہیں ذکر نہیں ہوتا تو خداوند کریم نے اسی ایت مجیدہ میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی ذکر فرمایا۔ 

بعضکم من بعض: یعنی نصرت دین اورموالات میں تم سب کا ایک حکم ہے کیونکہ تم سب صفت ایمان میں یکساں ہو اورعلامہ طبرسی فرماتے ہیں کہ اس آیت مجیدہ میں تشویق وتحریص موجود ہے کہ مومن گزشتہ آیات والی دعاوں کو پڑھتے رہیں کیونکہ جن لوگوں نے یہ دعائیں پڑھی تھیں ان کی مدح وثنا بھی فرمائی اوران کی دعا کو مستجاب بھی فرمایا ۔

حسن التواب یعنی اللہ کے پاس اعمال کی وہ جزا موجود ہے جس کی وصف وثناکوئی زبان کرہی نہین سکتی وہ ایسی ہوگی جو نہ کسی انکھ نے دیکھی اورنہ کسی کان نے سنی اورنہ کسی بشر کے دل پر اس کاخطور ہوا ہوگا کیونکہاخروی نعمات ہو قسم کے عیب ونقص سے پاک صاف ہوں گی تفسیر برہان میں ہے کہ آیت مجیدہ کے مصداق حضرت امیرعلیہ السلام حضرت سلمان حضرت ابوذر اورحضرت عمار ہیں مقصد یہ ہے کہ بوقت نزول یہ لوگ تھے ورنہ تاقیامت ایسی صفات والے مومنین اس آیت کے صحیح مصداق ہوتے چلے جائیں گے۔ 

متاع قلیل دنیا کی زندگی کو متاع قلیل اس لئے فرمایا کہ خواہ زندگی کتنی ہی پر ازعیش اورطویل ہو اخر اس نے ختم ہوجانا ہےا وراوراخر ت کی زندگی اوراس کی نعمات ابدیہ کے مقابلہ میں اس کا کوئی مقام ہی نہیں کافرخواہ کتنی ہی نعمت میں ہو اخرت کے عذاب کا جب دروازہ کھلے گا تو اس کو تمام تعمتیں بھول جائیں گی اورمومن خواہکتنی ہی تکلیف مین مبتلا ہو جب مرنے کے وقت جنت کادروازہ اس کے سامنے باز ہوگا تو اس کی تمام تکلیفیں رفع ہوجائیں گی اسی لئے توکہا گیا ہے کہ الدنیا سجن لمومن وجنتہ للکافر یعنی دنیا مومن کے لئے قید اورکافر کےلئے جنت ہے مومن اگر دنیا میں اسودہ حال بھی ہو جنت کی نعمات کے مقابلہمین اسے قید خانہ سمجھے گا اورکافر دنیا میں اگر بدحال بھی ہو لیکن جہنم کے مقابلہ میں اسے جنت سمجھے گا اورتفسیر مجمع البیان میں ابن مسعود سے مرویہے کہ کافر ومومن ہر دو کےلئے موت بہتر ہے مومن کےلئے تو اس واسطے کہ وہ جنت میں جاپہنچے گا اورکافر کےلئے اس واسطے کہائندہ کی زندگی مین جو اس کی نافرمانی کرنی تھی اس سے بچ جائے گا اوراسی قدر عذاب سے وہ نجا ت پالے گا۔ 

وان من اس ایت مجیدہ کی شان نزول کے متعلق تفسیر مجمع البیان میں ہے کہبادشاہ حبشہ جس کا نام عطیہ تھ اجب فوت ہوا تو جبرئیل نے اکر خبر دی اپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمہارا مومن بھائی مرچکا ہے چلونمازجنازہ پڑھیں چنانچہ اپ بمع صحابہ کے بقیع میں تشریف لائے مدینہ سے لے کر حبشہ تک اپ کے سامنے سے ظاہری حجاب ہٹا دئیے گئے ایک نصرانی کافر کا جنازہ پڑھ رہے ہیں تب یہ ایت نازل ہوئی اوربعض کہتے ہیںکہ یہودیوں کی جماعت کے حق میں اتری جو اسلام لائے تھے اوربعضوں نے کہا ہے کہ تمام اہل کتاب جومومن ہوئے یہ ایت ان کو شامل ہے

یایھاالذین تفسیر برہان یں بروایت کافی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مرویہے کہ حک صبرسے رماد ہے فرائض پرصبرکرن اورمصائب میں ایک دوسرے کو صبرکی تلقین کرنا اورئمہ کی محبت مٰں ثابت قدم رہنا

ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام موسے کاظم علیہ السلام سے منقول ہے کہ مصائب میں صبرکرو اورزمان تقیہ میں ایک دوسرے کو صبرکی تلقین کرواورجن کی اقدراءکرتے ہو ان کےلئے ثابت قدم رہو۔

مروی ہے کہ ایک مرتبہ ابن عباس نے اس آیت مجیدہ کی تفسیر طلب کرنے کےلئے ایک شخص کو امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں روانہ کیا جب سائل نے دریافت کیا تو اپ نے فرمایاکہ یہ آیت میرے باپ اورہمارے حق میں نازل ہوئی ہے اوروہ رباط جس کا آیت مجیدہ میں حکم ہے اسکے علاوہ اورکوئی نہ تھاہاں ہماری نسل سے مرابطہ کرنے والے ہوں گے واپس جاکر ابن عباس کو کہنا کہ تیری نسل سے ایک ذریت نکلے گی جو آتش جہنم کےلئے پیدا ہوگی وہ اللہ کے دین سے لوگوں کی جماعتوں کو خارج کریں گے اورآل محمدؐ کے بچوں کے خون سے زمین کو رنگین کریں گے اورایمان والوں سے لڑیں گے۔ 

رابطو : رباط کا اصل مفہوم تو ہے کہ اسلامی سرحدوں پر حفاظت کےلئے مجاہدبن ڈٹے رہنا اوران سرحدوں پر ثابت رہنے والوں کو مرابط کہا جاتاہے لیکن تفسیر معصومین میں اس جگہ رابطو اکا مطلب یہ بیان کیا گیاہے کہ اپنے امام وقت کی نصرت کےلئے اپنے آپ کو تیار رکھو اورانکی تمام احکام میں اطاعت کرو اورخدا کی نافرمانی سے بچو چنانچہ چنداحادیث بیان کی جاچکی ہیں اورانکےعلاوہ اوربھی بہت سے فرامین ہیں جوخانودہ عصمت سے اس بارہ میں وارد ہوئے ہیں ۔

اورامام علی زین العابدین علیہ السلام نے تاویل کے طور پر ایک فرد بیان فرمادی اجو اس آیت کا اپنے زمانہ میں مصداق آتے رہیں گے جیساکہ ہم نے مقدمہ تفسیر میں اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔

مجمع البیان میں مرابطہ سے مراد بعض اقول کی رو سے نمازوں کی یکے بعد دیگرے انتظار اوران کی پابندی لی گئی ہے چنانچہ جناب رسالتمابؐ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ سے افضل اعمال کے متعلق دریافت کیا گیا توفرمایا وضو کا کامل کرنا نماز جماعت کیطرف قدم بڑھانا اورنمازوں کی یکے بعد دیگرے انتظار کرنا اوریہی مرابطہ ہے۔ 

آج بحمد اللہ بروز اتوار ساڑھے تین بجے بعد دوپہر ۷۱ جمادی الثانیہ ۱۷ھ مطابق ۶۲ نومبر ۱۶ء سورہ آل عمران کی تفسیر سے فارغ ہوا اورخداوندکریم سے دست بدعا ہوں کہ بحق محمد وآل محمد والہ الطاہرین مجھے پورے قرآن کی تفسیر پر موفق فرمائے اوراس سلسلہ میں حائل شدہ جمیع جانی ومالی رکاوٹوں کودور کرے اوروہ دعاؤں کو قبول کرنے والا مہربان ہے اس کے بعد سورہ نساءکی تفسیر شروع ہوگی۔ 

واللہ الموفق والمعین والحمدللہ رب العلمین وصلی اللہ علی محمد والہ الطاھرین




Post a Comment