Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

surah imran | ruku no 10| kisi qom kay fail par razi honay wala | کسی قوم کے فعل پر راضی ہونیوالاانہی میں سے شمار ہوگا۔ - آل عمران رکوع نمبر 10

surah imran | ruku no 10 | kisi qom kay fail par razi honay wala | کسی قوم کے فعل پر راضی ہونیوالاانہی میں سے شمار ہوگا۔ - آل عمران رکوع نمبر 10

surah imran | ruku no 10| kisi qom kay fail par razi honay wala | کسی قوم کے فعل پر راضی ہونیوالاانہی میں سے شمار ہوگا۔ - آل عمران رکوع نمبر 10


ٱلَّذِينَ قَالُوۤاْ إِنَّ ٱللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ ٱلنَّارُ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِى بِٱلْبَيِّنَاتِ وَبِٱلَّذِى قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٨٣﴾
 جنہوں نے کہا تحقیق اللہ نے عہد دیا ہے ہم سے کہ نہ ایمان لائیں کسی رسولؐ پر یہاں تک کہ لائے ہمارے پاس قربانی کو کھا جائے آگ فرما دیجئے تحقیق آئے تمہارے پاس رسول مجھ سے پہلے واضح نشانیاں لیکر اور ساتھ اس نشانی کے جو تم نے کہی پس کیوں تم نے ان کو قتل کیا اگر تم سچے ہو؟ ﴿١٨٣﴾

فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوا بِٱلْبَيِّنَاتِ وَٱلزُّبُرِ وَٱلْكِتَابِ ٱلْمُنِيرِ ﴿١٨٤﴾
 پھر اگر آپ کو جھٹلائیں (تو غم نہ کرو) تحقیق جھٹلائے گئے بہت رسول آپ سے پہلے جو لائے تھے واضح نشانیاں اور کتاب روشن ﴿١٨٤﴾

كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ ٱلنَّارِ وَأُدْخِلَ ٱلْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما ٱلْحَيَاةُ ٱلدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ ٱلْغُرُورِ ﴿١٨٥﴾
 ہر نفس چکھنے والا ہے موت کا اور تحقیق تمہیں پورا اجر دیا جئے گا بروز قیامت پس جو بچایا گیا نار سے اور داخل کیا گیا جنت میں پس وہ کامیاب ہوا اور نہیں زندگانی دنیا مگر سامان دھوکے کا ﴿١٨٥﴾

لَتُبْلَوُنَّ فِيۤ أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوۤاْ أَذًى كَثِيراً وَإِنْ تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ ٱلأُمُورِ ﴿١٨٦﴾
 البتہ تم ضرور آزمائے جاؤ گے اپنے مالوں اور اپنے نفسوں میں اور ضرور سنو گے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تم سے پہلے اور ان سے جو مشرک ہیں اذیت بہت اور اگر صبر و تقوٰی اختیار کرو گےتو یہ جواں مردی کا کام ہے ﴿١٨٦﴾

وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَاقَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَآءَ ظُهُورِهِمْ وَٱشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴿١٨٧﴾
 اور جب لیا اللہ نے عہد ان سے جنہیں کتاب دی گئی کہ اس کو ضرور بیان کرو گے لوگوں کے لئے اور نہ چھپاؤ گے پس ڈال دیا انہوں نے اس (عہد) کو اپنی پشت کے پیچھے اور خرید لی اس کے بدلے قیمت تھوڑی پس بری ہے وہ چیز جو خرید لیتے ہیں ﴿١٨٧﴾

لاَ تَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَآ أَتَوْاْ وَّيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ يَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ ٱلْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٨٨﴾
 نہ خیال کرو ان کو جو خوش ہوتے ہیں ساتھ اس کے جو کیا انہوں نے اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ایسی بات پر جو انہوں نے نہیں کی پس نہ خیال کرو کہ نجات یافتہ ہیں عذاب سے اور ان کےلئے درد ناک عذاب ہے ۔ ﴿١٨٨﴾
وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَاوَاتِ وَٱلأَرْضِ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٨٩﴾
 اور اللہ کے لئے ہے ملک آسمانوں کا اورز مین کا اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ ﴿١٨٩﴾

کسی قوم کے فعل پر راضی ہونیوالاانہی میں سے شمار ہوگا


الذین قالو کہتے ہیں کہ یہودیوں کی قربانیوں کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ قربانی کرکے اسے رکھ دیتے تھے پس آسمان سے آگ اترتی اورجس کی قربانی مقبول ہوتی تھی وہ اس کو جلادیتی تھی اورجس کی قربانی مقبول نہ ہوتی تھی اس کو آگ چھوڑ دیتی تھی پس ان لوگوں نے حضرت رسالتمابؐ سے بھی وہی نشانی طلب کی لیکن ارشاد قدرت ہوا کہ ان کے مزاج اپنے اسلاف کے مزاجوں کے بالکل موافق ہیں اوریہ لوگ ان کے افعال پر بالکل راضی ہیں جب ان کے پاس ہر قسم کے معجزات ائے اوریہی مطلوبہ نشانی بھی ان کے سامنے موجود تھی الیکن ان سب کے باوجود نہوں نے بلادریغ انبیاء کو قتل کرواڈالا تو ان لوگوں سے کیا توقع ہوسکتی ہے بلکہ یہ صرف بہانے بناتے ہیں۔ 

تفسیر برہان میں کافی وعیاشی سے منقول ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قدریہ اورخوار ج پر لعنت بھیجی وراس کے بعد مرحبہ پر دودفعہ لعنت کی راوی نے مرحبہ پر دوبارہ لعنت بھیجنے کی وجہ دریافت کی تو اپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے قاتلین کو مومن کہتے ہیں پس تاقیامت ان کے لباس ہمارے خون سے الودہ رہیں گے جس طرح کہ رسالتماب کے زمانہ کے یہودیوں کو انبیاء ماسلف کے قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے حالانکہ قتل کرنے والوں اوران کے درمیان پانچسوسال کی مدت کا فاصلہ تھا یہ چونکہ ان کے فعل پر راضی تھے لہذا خدانے ان کو بھی انبیاءکا قاتل فرمایا۔ 

فمن زحزح تفسیر برہان میں بروایت تفسیر قمی امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ قیامتکے دن جناب رسالتماب کو گلابی حلا پہنایا جائے گا اورآپ عرش کی دائیں جانب قیام فرمائیں گے پھر حضرت ابراہیم کو سفید حلہ پہنایا جائیگا اوروہ عرش کے بائیں جانب کھڑے کئے جائیں گے پھر حضرت علی علیہ السلام کوگلابی حلہ پہناکر جناب رسالتمابؐ کے دائیں طرف جگہ دی جائیگی اورحضرت اسمٰعیل کو سفید حلہ پہناکر حضرت ابراہیم کے بائیں جانب کھڑا کیا جائے گا پھر حضرت حسن مجتبیؑ کو گلابی حلہ میں حضرت علی عل کے دائیں طرف جگہ ملے گی اس کے بعد حضرت حسین علیہ السلا م اوران کے بعد یکے بعد دیگرے ائمہ طاہرین علیہم السلام کو گلابی حلہ ہائے بہشت پہنائے جائیں گے وہ سب بالترتیب ایک دوسرے کے دائیں جانب قیام فرماہوں گے اوران کے سامنے ان کے شیعوں کو کھڑا کیا جائے گا پھر جناب فاطمہؤ اوراس کی ذریت اورشیعہ عورتیں ائیں گی پس یہ سب داخل جنت ہوں گے بلاحساب بطنان عرش سے جناب ربا لعزت کی طرف سے ندائے گی اے محمد تیرا بہترین باپ ہے ابراہیم اوربہترین بھائی ہے علی بن ابی طالب اوربہترین سبط ہیں حسن وحسین اوربہترین جنین ہے محسن اوربہترین ائمہ ہیں تیری ذریت اوران کا نام لیا جائے گا اوربہترین شیعہ ہیں تیرے شیعہ اگاہ رہو یہی ہیں کامیابہونے والے اوراس ایت کایہی مطلب ہے (ملحضا)۔ 

متاع الغرور مجمع البیان میں ہے کہ جنت میں ایک چھڑی رکھنے کی جگہ دینا وراس کی تمام نعمات سے بہتر ہے۔ 

اذی کثیر یہودی لوگ جناب رسالتماب کی اورمومنین کی جو کرتے تھے اورزبانی اذیتیں دیتے تھے پس خداوند کریم ان کوتلقین صبر وتقوی فرمارہاہے۔ 

واذااخذاللہ کتب سابقہ میں چونکہ جناب محمد مصطفیؐ کی رسالت اوردین اسلام کی حقانیت کا اعلان تھالیکن اہل کتاب کے علماءرشوتیں اورہدیے لے کر چھپانے کے درپے ہوتے تھے پس یہ ایت ان کی ندامت میں اتری بلکہ ہر وہ عالم جو جان بوجھ کر مسائل حقہ پر پردہ ڈالے وہاس آیت کامصداق ہوسکتا ہے چنانچہ تتفسیر مجمع البیان میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ اللہ نے جاہلوں سے سیکھنے اورتعلیم دینے کا عہد پہلے لے لیا۔ 

لاتحسبن الذین کہتے ہیں کہ علماءیہود جب اپنے عوام کی تعظیم کرتے اوران کو عالم کہتے تھے تو وہ خوش ہوتے تھے یایہ کہ منافقین جب جہاد میں حاصر ہونے سے گریز کرتے تھے اورپھر مسلمانوں کےسامنے اپنی عذر خواہی کرتے تھے اورچاہتے تھے کہ ہمیں سچا مسلمان سمجھاجائے اورہماری تعریف کی جائے یایہکہ خیبرکے یہودی حاصر بارگاہ رسالت ہوئے اورکہاکہ ہم اپ کو پہچانتے اوراپ پر ایمان رکھتے ہیں تو مسلمانوں نے ان کی تعریف کی پس ایت مجیدہ میں خدا وند کریم ان کی مذمت فرمارہاہے اورظاہر ایت اگرچہ بعض افراد کو شامل ہے لیکن اس کی تاویل قیامت تک جاری ہے اورجو لوگ ایسی صفات کے حامل ہین وہ ہرزمانہ میں اس ایت کے مصداق ہوتے جارہے ہیں اورعوام کی بہ نسبت علماءپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اوران کی بازپرس بہ نسبت عوام کے سخت تر ہوگی اللھم اجعلنی ممن یذکر فتنفعہ الذکری۔ 

Post a Comment