Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

تعددازواج پروارد شدہ اعترضات اوران کے جوابات

تعددازواج پروارد شدہ اعترضات اوران کے جوابات

تعددازواج پروارد شدہ اعترضات اوران کے جوابات

چونکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ کان میں ہر نئی آنیوالی بات جاذب طبع اوراہمیت کے ساتھ معرض التفات ہو جایا کرتی ہے اوردور کے ڈھول سہانے کا فقرہ ایک ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے اسی کے ماتحت مسلمانوں میں مغرب کی طرز زندگی کے اثرات زیادہ سے زیادہ جذب ہوتے چلے جارہے ہیں اوراس طرف سے اٹھتی ہوئی ہر آواز پر یہ بھی کان دھرنے کو تیار ہیں اوران کی صفات کو اپنے میں جذب کرنے کے شیدائی ہیں وہ لوگ مجبور ہیں کنسیہ کی طرف سے ان کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں ملتی پس وہ مدت سے ایک ہی شادی پر اکتفاکرتے چلے آئے ہیں اوران کی عورتیں نسلاًبعد نسل اسی نقطہ خیال سے مانوس ہیں بس مرد صرف ایک ہی عورت سے شادی کرسکتا ہے لہذا وہ اسلامی نقطہ نگاہ سے برسرپیکار رہتے ہیں اوراپنے اوپر عائد شدہ پابندی کو دوسروں پر ٹھونسنے کےلئے عقلی وجوہات تلاش کرتے ہیں اورمسلمانوں کو اسلامی قوانین سے باغی کرنے کے حیلے وبہانے بتاتے ہیں اوراسکو حریت وآزادی کالبادہ دے کر سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اپنے نظریہ باطل کی فتح کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اوراسلامی تعلمات سے بے بہرہ طبقہ کے لوگ انکی اس دجل فریبی کاشکار ہو کر اسلامی فطری قوانین کے خلاف علم بغاوت کھڑا کردیتے ہیں چنانچہ اسلامی تعدد از واج کے مسئلہ پر انہوں نے چنداشکالات وارد کئے ہوئے ہیں یہ سوالات وجوابات تفسیر میزان جلد ۴ سے نہایت اختصار کے ساتھ میں نے اخذکئے ہیں۔ 
  1.  تعددازواج کی اجازت صنف نازک یعنی عورتوں کے دلوں پر ایک ضرب کاری ہے جس سے ان کے دلوں میں مردوں سے نفرت کا جذبہ پیداہوتا ہے اورتمدنی انسان زندگی معرض خطر میں آجاتی ہے اورخانگی آسود گی اورخوشحالی بدمزگی سے تبدیل ہو کر خانہ آبادی بربادی سے بدل جاتی ہے اورعورتوں میں مرد کے حق میں خیانت کا جذبہ پیدا ہوکرازواجی زندگی کی روح کو ختم کردیتا ہے
  2.  مردم شماری کے لحاظ سے تقریبا عورتوں اورمردوں میں برابری پائی جاتی ہے لہذا فطری تقاضا یہی ہے کہاایک مرد کےلئے صرف ایک عورت کے ساتھ نکاح جائز ہو ا۔ 
  3.  مردوں کو زیادہ نکاح کی اجازت دینا ان کو شہوت پرستی کی دعوت دینے کے مترادف ہے جوازدواجی زندگی کی حقیقی روح کے منافی ہے۔ 
  4.  اجتماعی زندگی میں عورت ومرد انسانیت کے دواہم حصے ہیں اوراس سلسلے میں عورت ومرد کے ساتھ برابر حصہ دار ہے لہذا مرد کےلئے زیادہ نکاح کی اجازت عورت کی توہین ہے اوراجتماعی زندگی میں اس کے نظر انداز کرنے کی دلیل ہے۔ 
جواب نمبر 1: اس میں شک نہیں کہ احساسات وجذبات پر مقدار وکفییت کے لحاظ سے تربیت وماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے جس طرح عام عادات ورسوم میں ممدد حیت یامذمومیت تربیت وماحول کے ماتحت ہوا کرتی ہے چنانچہ ایک قوم وعلاقہ کی ممدوح رسم دوسرے ماحول میں مذموم شمار ہوجاتی ہے پس اسلام نے عورت کےلئے جوفرائض وحکام تجویز کئے ہیں اگر عورت انہی تعلیمات کے ماتحت پروان چڑھے تو کوئی وجہ نہیں کہ کسی اسلامی حکم کو وہ بار خاطر سمجھے یااس کااس کی طبیعت پر ابرااثر پڑے ہاں مغربی عورتیں چونکہ مدت مدیر سے اسی طرز عمل کو دیکھتی آئی ہیں کہ ایک مرد کےلئے صرف ایک ہی عورت ہوتی ہے پس ان کاماحول ان کےلئے تعدد ازواج کا مسئلہ ایک ناقابل برداشت بوجھ کی شکل میں ظاہر کرتا ہے اوراس کی فطرت وطبیعت سے کوئی واسطہ نہیں ورنہ انکے متمدن طبقہ میں زن ومرد کا آزادنہ اختلاط مذموم ہوتا۔  کیاا نہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے مرد جنسی میل جول میں صرف ایک عورت پر اکتفانہیں کرتے بلکہ ہزار میں سے بھی ایک مرد بمشکل زنا سے محفوظ ہوگا اوراس سے بھی ان کی شہوت کی تسکین نہیں ہوتی اورعورتوں سے تجاوز کرتے ہوئے لواطت کی طرف بھی قدم بڑھالیتے ہیں یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ برطانوی کی پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا گیا تھاکہ لواطت کو قانونی جواز کی شکل دی جائے جبکہ غیر قانونی طور پر یہ دباہمہ گیری تک پہنچ چکی تھی اورعورتوں میں خصوصا بے شوہر نوجوان لڑکیوں میں توآزادانہ اختلاط کی جو روایات ہیں بس تو بہ ہی بھلی ۔
 کیا اس آزادانہ شہوت پرستی سے ان عورتوں کی نہ دل شکنی ہوتی ہے اورنہ ان کی طبیعت پر کسی قسم کابوجھ پرتا ہے نہ وہاں عورت کی رگِ حمیت پھڑکتی ہے اورنہ مرد کو احساس پیدا ہوتا ہے کہ مرد کےلئے صرف ایک عورت اورعورت کےلئے صرف ایک مرد کافی ہے اس سے تجاوزکرنا۔ دوسروں کی حق تلفی ہے لیکن یہ بے راہ روی چونکہ انکے ماحول میں داخل ہے لہذااس سے تاثر نہیں ہوتا اورچونکہ اسلامی قانون اوراس کے عمل سے ان کا ماحول بیگانہ ہے لہذا ایہ موجب دل شکنی بھی ہے اورمنافی مساوات بھی اوراجتماعی زندگی کے خلاف بھی ذرا گریبان میں منہ ڈال کردیکھیں کہ آزادنہ ہو س پر ستی اورشہوت رانی تمدن انسانی سے کیا نسبت رکھتی ہے اوراس کا خانگی خوشحالی سے کیا واسطہ ہے کیا یہ صورت تو خیانت کے جذبہ کےلئے موجب نہیں بنتی۔ 
جواب نمبر 2 : مردم شماری کے لحاظ سے اگر تسلیم کرلیں کہ عورتوں اورمردوں کی تعداد برابر ہے تاہم عورتوں کی قابل نکاح تعداد بالغ مردوں سے ہمیشہ زیادہ ماننی پڑتی ہے کیونکہ گرم ممالک میں عورت نو برس سے اوپر جوان ہوجاتی ہے اورسرد ممالک میں ایا ۲۱ سال کی عورت تو بالعموم قابل شادی ہو جایا کرتا ہے اورمرد پندرہ سولہ سال تک عموما جوان ہوجاتے ہیں فی الحال صرف سولہ سالوں کا حساب لگاتے ہیں فرض کیجئے سولہ سال کے دوران میں لڑکے اورلڑکیاں مساوی تعداد میں پید اہوتے رہے تو اس مدت کے بعد جب وہ جائزہ لیں گے تو لڑکے صرف وہی قابل نکاح ہوں گے جو پہلے سال پید اہوئے تھے لیکن لڑکیاں چونکہ زیادہ سے زیادہ بارہ سال کی جوان ہوتی ہیں لہذا پہلے سال سے چوتھے سال تک کی پیدا ہونے والی لڑکیاں سب بالغ ہوں گی یعنی ایک سال کے پیدا شدہ لڑکوں کے مقابلہ میں چار سولوں کی پیدا شدہ لڑکیاں قابل شادی ہو جایا کرتی ہیں اس لحاظ سے بھی ایک اورچار کی نسبت رہتی ہے ا وریہ نسبت ہم نے کم ازکم لگائی ہے ورنہ گرم ممالک کے لحاط سے جہاں سال سے لڑکی جوان ہو جاتی ہے جیساکہ شرعی فیصلہ بھی یہی ہے ت ونسبت اوربڑھ جائے گی کیونکہ فرض ہے کہ پیدائش میں عورت اورمرد مساوی ہیں۔ 
 نیز عورت میں سلسلہ تولید وتناسل زیادہ سے زیادہ عموما پچاس سال تک ہوتا ہے اورمرد اس سے زیادہ عمر میں بھی سلسلہ تولید کے قابل ہوتے ہیں تو دریں صورت مرد کو صرف ایک عورت پر پابندکرنا اس کی فطری حق سلبی ہے۔ 
نیز اسباب موت بہ نسبت عورتوں کے مردوں کے لئے زیادہ ہیں کیونکہ جنگ ودفاع کے زمانہ میں مردوں کی خاصی تعداد لقمہ اجل ہوجاتی ہے اورعورتیں اس فریضہ سے سبکدوش ہیں پس اگر مرد کےلئے صرف ایک نکاح کی اجازت ہوتو بہت سی عورتیں اجتماعی زندگی سے محروم کردی جائیں گی اوربہر صورت مرد وعورت کی عددی مساوات کو تو اس وقت بصورت اعتراض پیش کیا جاسکتا ہے جب یہ کہا جائے کہ مرد کےلئے چار عورتوں سے نکاح کرنا واجب ہے حالانکہ شریعت اسلامیہ نے قطعا وجوب کا فتوے نہیں دیا بلکہ یہ اس صورت میں ہے کہ مرد چار عورتوں کے نان ونفقہ کی طاقت رکھتا ہو اوران میں عدل وانصاف کرسکنے پر قادر ہو تب اس کو صرف اجازت ہے کہ چار تک نکاح کرے۔ 
جواب  نمبر 3 :  عورت کی تربیت اگراسلامی ماحول میں ہو اورپردہ عفت اورحیاءکی اسے پوری تعلیم دی جائے تو اس کی شہوت نکاح یقینا صرف ایک مرد سے پوری ہوسکتی ہے اورقطعاً وہ آمادہ زنانہیں ہوسکتی لیکن بخلاف اس کے مرد میں جو فطری جذبہ شہوت موجود ہے وہ بالعموم ایک عورت پر بمشکل قناعت کرتا ہے اگر اسکے لئے حلال کا دروازہ بندکردیا جائے تو وہ یقینا حرام کی طرف للچاتا ہے اورتکمیل شہوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پاوں مارتا ہے نیز عورت میں ہر ماہ عارضی حیض ضروری ہے اس کے علاوہ ایام حمل ورضاع کہ ان میں و ہ جنسی تعلقات سے بے نیاز رہتی ہے اگر مرد کےلئے صرف ایک عورت کی پابندی ہوتو وہ اس زمانہ میں یقینا اپنے فطری جذبات کی تسکین کےلئے بے راہ روی پر آمادہ ہوگاپس ان تمام وجوہ کے پش نظر اسلام نے مرد کو ایک سے زیادہ اورآخر چار تک نکاح کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ کسی طرح بے راہ روی اورآزادانہ اختلاط کارستہ مسدود ہو۔ 
حیرت کی بات ہے کہاگر مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی جائے تو اس میں شہوت پرستی کی تعلیم ہے لیکن دوسری طرف سینماوں کلبوں ناچوں اورگانوں میں عورتوں کی ہی پیش پیش رکھا جاتا ہے ان میں مغربیت زدہ افکار کو کبھی یہ سوچنے کی ضرورت تک محسوس نہیں ہوئی کہ کیا ان صورتوں میں مردوں کو شہوت رانی کی دعوت نہیں اگر مردوں کی شہوت کے خلاف جہاد کرنا ہے تو صرف قرآنی اصول سے برسرپیکار ہونے کی بجائے پہلے اس قسم کے اسباب شہوت رانی کا قلع قمع کیا جائے مردوعورت ہر طرح کی آوار گی کا مظاہرہ کریں اورجذبات وخواہشات کی تسکین کےلئے ہر قسم کی رنگ رلیاں منائیں تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی لیکن جب السلام ایک تنظیم کے ماتحت اسی جذبہ شہوانی کی تکمیل کےلئے ایک ضابطہ مقرر کردے تاکہ فطری حقوق بھی پامال نہ ہوں اورآورگی بھی انسانیت کے وقار پر حملہ آ ور نہ ہوتو اس کے خلاف علم بغاوت کھڑا کیا جاتا ہے اوربعض منصف طبع عیسائی اس امر کا اعتراف رکھتے ہیں کہ مسیحی مذاہب میں زنا اوربدکاری کاہمہ گیر طوفان صرف اسلئے ہے کہ کنسیہ کی طرف سے ایک سے زیادہ نکاح کی فردوں کو ممانعت ہے۔
جواب نمبر 4:  ہم نے تفسیر کی تیسری جلد ص ۵۹ میں نسوانی زندگی پر اسلام کا احسان کے موضوع کے تحت میں ایک بسوط بیان لکھا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ عالم کے تمام مذاہب وعلل میں سے کسی مذہب وملت میں عورت کے احترام وقار کوکوئی مقام نہیں دیا گیا جس طرح کہ ملت اسلامیہ نے دیا ہے اورمرد کےلئے متعدد نکاحوں کی اجازت قطعا عورت کے وقار کے منافی نہیں کہ اہل مغرب کے سنجیدہ طبقہ نے بھی اسلام کے اس قانون کو بنظر استحسان دیکھا ہے اسلام نے عورت کو پردہ داری عفت وحیاکادرس دے کر اس کے وقار کو اس قدر بلند کیا کہ تمام اقوام عالم اس سے محو حیرت ہیں ہر مرحلہ میں عورت کا مرد کے دوش بدوش ہونا اوربے پردہ یانیم عریاں لباس میں بازاروں کی سیر کرنا یہ عورت کاوقار نہیں اورنہ اس میں حقوق نسوانی کی پاسداری ہے بلکہ درحقیقت فطرت سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔ 

تعددازواج کے مسئلہ کو عورت کے وقارکے منافی سمجھنے والے سینماوں کلبوں اوربرہنہ رقصوں میں عورت کے کردار کو اس کے وقار کے منافی کیوں نہیں قرار دیتے کیا عورت خود یہ نہیں سمجھتی کہ ان جیسے مقامات میں اس کا پیش ہونا مردوں کی تکمیل ہو اس کےلئے نشانہ بننے کے مترادف ہے تمام موجودہ متمدن ممالک اوراپنے تئیں تہذیب یافتہ کہلونے والے عورت ومرد کے نوعی لباس کا ذرا جائزہ لیں مردوں کا لباس سرتاپاہو اورجسم کاکوئی حصہ ننگا نہ ہو اورعورتوں کےلے نیم برہنہ لباس اوروہ بھی برئے نام اسکی پوزیشن میں دخل ہو بالکل چست ومختصر لباس عورت کے ترقی یافتہ ہونے کی دلیل سمجھی جائے کیایہ بات عورتوں کے وقار پر ضرب کاباعث نہیں ہاں مغرب زدہ لوگ اہل مغرب کی فریب کاریوں کے جال میں ا س بری طرح پھنسے ہیں کہ ان کے ہر قول وفعل کی اقتداءکو تہذیب اوران کے نظریہ سے ہر بیگانی چیز کو خلاف تہذیب ومنافی وقار خیال کرتے ہیں۔ 

بہرکیف تعددازواج کے مسئلہ پر وارد شدہ اعترضات بلکل بے ہودہ ولغو ہیں اورمن مانی تاویلیں خلاف منشاءتوحید ہیں خداوند کریم نے مرد کےلئے حسب استطاعت بشرط عدل وانصاف ایک سے لے کر چار تک نکاح کرنے کی اجازت دی ہے اورشرعی قانون تاقیامت ناقابل ترمیم وتنسیخ ہے لہذا ا س کے خلاف آواز اٹھانامفت کی ہنگامہ آرائی ہے جوشرعی فیصلے کو ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتی۔ 

Post a Comment