Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

کم عقل اوربے وقوف کو مال کے خرچ کا مختار نہ بناؤ - القرآن

 کم عقل اوربے وقوف کو مال کے خرچ کا مختار نہ بناؤ 

کم عقل اوربے وقوف کو مال کے خرچ کا مختار نہ بناؤ - القرآن


وَلاَ تُؤْتُواْ ٱلسُّفَهَآءَ أَمْوَالَكُمُ ٱلَّتِى جَعَلَ ٱللَّهُ لَكُمْ قِيَاماً وَٱرْزُقُوهُمْ فِيهَا وَٱكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً ﴿٥﴾ 
اور نہ دو بے وقوفوں کو اپنے وہ مال کہ کیا ہے ان کو اللہ نے تمہارے لئے موجب گذران اور خوراک دو ان کو اس میں اور کپڑا دو اور کہو ان کو نیک بات ﴿٥﴾
وَٱبْتَلُواْ ٱلْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِّنْهُمْ رُشْداً فَٱدْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَلاَ تَأْكُلُوهَآ إِسْرَافاً وَبِدَاراً أَن يَكْبَرُواْ وَمَن كَانَ غَنِيّاً فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَن كَانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِٱلْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيباً ﴿٦﴾ 
اور آزماؤں  یتیموں کو یہاں تک کہ جب پہنچیں جوانی کو تو اگر دیکھو ان سے دانائی تو واپس دے دو ان کو ان کے مال اور نہ کھاؤ ان کو فضول خرچی اور جلدی سے کہ کہیں بڑے نہ ہوجائیں اور جو دولت مند ہو تو اسے بچا رہنا چاہیے اور جو تنگدست ہو تو اسے کھانا چاہیے ساتھ نیکی کے پس جب واپس دو ان کو ان کے مال تو گواہ قائم کرلو ان پر اور کافی ہے اللہ حساب لینے والا﴿٦﴾

وَلَاتُوْتُوْالسُّفَھَآءَ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مطلقاًکم عقل اوربے وقوف کو مال کے خرچ کا مختار نہ بناؤ خواہ یتیم ہو یاغیر یتیم خواہ اپنا لڑکا ہو یا کوئی دوسرا بے عقل انسان اور بعضوں نے اس سے مراد لیاہے کہ عورتوں کو مال کاذمہ وار نہ بناؤ اورسفہاءسے مراد اس مقام پرعورتیں ہیں نیز روایات میں شرابی پر بھی سفیہ کا اطلاق ہوا ہے کہاں مطلب یہ ہے کہ بیوقوفوں کو ایسے مالوں کا ذمہ دار نہ ٹھہراؤ جن مالوں سے تمہاری گذران چل رہی ہے کیونکہ وہاں سے ادھر ادھر کرکے برباد کردیں گے اورتم دوسروں کے دست نگر ہوجاؤ گے پس تم پر لاز م ہے کہ ان اپنے ہاتھ سے روٹی کپڑا دیتے رہو اوران سے سخت کلامی بھی نہ کرو۔ 

لطیفہ

  1. تفسیرمجمع البیان میں مروی ہے کہاایک مرتبہ ایک عورت حبشیہ جو خوب باتیں کرسکتی تھی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہنے لگی یارسولؐ اللہ  میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کبھی کوئی بات تو ہمارے حق میں بھی اچھائی کی فرمادیجئے کیوں کہ میں تو سنتی ہوں کہ آپؐ ہمیں ہمیشہ برائی سے یاد فرمایا کرتے ہیں آپ نے فرمایا وہ کیسے؟ کہنے لگی آپ ہمیں بےوقوف کہتے ہیں فرمایا یہ نام تمہیں خدانے دیا ہے اسنے کہا آپ ہمیں ناقص کہتے ہیں فر مایا کیا یہ نقص نہیں کہ تم ہرماہ میں چنددن نمازکے قابل نہیں رہتی لیکن تمہاری فضیلت اورتمہارے درجہ کےلئے کافی ہے کہ 
  • جب عورت حاملہ ہوتو اسے اللہ کی راہ میں مرابطہ کرنے کا ثواب ملتا ہے 
  • جب عورت کا بچہ پیدا ہوتواسے شہید کا درجہ ملتا ہے 
  • جب بچہ کو دودھ پلائے تو ایک ایک گھونٹ کے بدلہ میں اسے اولاد اسمعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے
  •  جب بچے کی حفاظت کےلئے شب بیداری کرے تو ہر بیداری کے عوض میں اسے اولاد اسمعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا درجہ ملتاہے لیکن یہ درجات ان مومنہ عوتوں کےلئے ہیں جو خشوع اورصبر کرنے والی ہوں یہ سن کروہ حبشی عورت کہنے لگی درجہ تو        بہت بڑا ہے لیکن کاش یہ شرطیں نہ ہوتیں۔ 
        2. تفسیر برہان امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہاگرکسی شخص کو معلوم ہوکہ میری عورت بیوقوف ہے یالڑ کے کے متعلق معلوم ہو کہ بے عقل ہے تو اسے اپنے مال پر مسلط نہیں کرنا چاہیے جس پر اس کی معاش کا دارومدار ہے اورآپ نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ 
 جناب رسالتمابؐ سے مروی ہے کہ 
  • شرابی کے قول کی تصدیق نہ کرو ۔
  • اس سے رشتہ نہ کرو ۔
  • اس کی عیادت کو نہ جاؤ ۔
  • اس کے جنازہ میں شرکت نہ کرو۔
  •  اس کو امانت پر امین نہ بناؤ ۔
  • اگر اسے امین بنایا تو اس کو نہ اجر دیاجائے گا اورنہ اس کی ذمہ داری خدا پر عائد ہوگی کیونکہ اس نے فرما دیا ہے کہ بےوقوفوں کو مال نہ سونپو اورشرابی سے زیادہ بیوقوف کون ہے؟
        3.  امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو مال دے کر یمن کی طرف بغرض تجارت روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اے فرزند تجھے یہ پتہ نہیں کہ و ہ تو شراب پیتا ہے میں نے عرض کی اباجان لوگ توکہتے ہیں آپ نے فرمایا ایسی صورت میں یہ اقدام نہ کرو کیونکہ ایسے فعل کی ذمہ داری خدا پر نہیں ہے اگر نقصان ہوجائے تو اس بارے میں خدا دعا قبول نہیں کرتا کیونکہ اس نے منع فرمایا ہے کہ بے وقوف کو مال کا آمین یاذمہ نہ بنایا جائے اورشرابی سے زیادہ بیوقوف اورکون ہوسکتا ہے۔ 
اقول روایت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگرکسی شخص کے متعلق عام افواہ اس قسم کی ہو تب بھی اپنے مال کی حفاظت کے پیش نظراس سے گریز کرنا چاہیے نیز اسی قسم کی روایت حضرت امام جعفر صادق کے فرزند اسمعیل کے متعلق بھی ہے چنانچہ ان کا مال نقصان ہوگیا اورپھر حضرت صادق علیہ السلام نے اس کو اس پر بددعا سے منع فرمایا اورکہا کہ اب یہ بددعا بے محل ہے۔ 
        4.  عیاشی سے منقول ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ سفیہ سے مراد ہروہ شخص ہے جو قابل وثوق نہ وہو۔ 
        5. حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ ہرنشہ کی چیز استعمال کرنے والا شخص سفیہ ہے پس اسے مال کی ذمہداری سپرد نہ کرنی چاہیے۔ 

Post a Comment