Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

surah jasia read online arabic urdu text PDF | سورہ جاثیہ ترجمہ تفسیر

surah jasia read online arabic urdu text PDF |   سورہ جاثیہ ترجمہ تفسیر 



 
 
Surah Jasia - Arabic Text
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
حم (1) تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَ (3) وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (4) وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاء مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (5) تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (6) وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (7) يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (8) وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (9) مِن وَرَائِهِمْ جَهَنَّمُ وَلَا يُغْنِي عَنْهُم مَّا كَسَبُوا شَيْئًا وَلَا مَا اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاء وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (10) هَذَا هُدًى وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مَّن رِّجْزٍ أَلِيمٌ (11) اللَّهُ الَّذِي سخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (12) وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لَّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (13) قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لا يَرْجُون أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِما كَانُوا يَكْسِبُونَ (14) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (15) وَلَقَدْ آتَيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (16) وَآتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمْ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (17) ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (18) إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (19) هَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمِ يُوقِنُونَ (20) أًمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أّن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاء مَّحْيَاهُم وَمَمَاتُهُمْ سَاء مَا يَحْكُمُونَ (21) وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (22) أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (23) وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (24) وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (25) قُلِ اللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكَثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (26) وَلَلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرضِ وَيَومَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ (27) وَتَرَى كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَى إِلَى كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (28) هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (29) فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (30) وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا أَفَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاسْتَكْبَرْتُمْ وَكُنتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ (31) وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ (32) وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون (33) وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاء يَوْمِكُمْ هَذَا وَمَأْوَاكُمْ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ (34) ذَلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (35) فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (36) وَلَهُ الْكِبْرِيَاء فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (37) 
 
Surah Jasia - Urdu Text
حٰمٓ ﴿١﴾ اتارنا کتاب کا اللہ کی طرف سے ہے جو غالب و دانا ہے ﴿٢﴾ تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں مومنوں کے لئے نشانیاں ہیں ﴿٣﴾ اور تمہارے پید اکرنے میں او رجو کچھ اس نے پھیلائے ہیں زمین پر چلنے والے جانور ان میں نشانیاں ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے ﴿٤﴾ اور شب و روز کے اختلاف میں اور جو اللہ تعالیٰ نے اتارا آسمان سے رزق پس اس کے ذریعے زندہ کیا زمین کو بعد موت کے اور ہواؤں کے چلانے میں نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لئے ﴿٥﴾ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جو ہم تلاوت کرتے ہیں تجھ پر حق کے ساتھ پس وہ کس بات پر اللہ اور اس کی آیات کے بعد ایمان لائیں گے؟ ﴿٦﴾ ویل ہے ہر بہتان تراش گنہگار کے لئے ﴿٧﴾ جو اللہ کی آیات کو سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ڈٹ جاتا ہے تکبر کرتے ہوئے (کفر پر) گویا کہ اس نے کچھ نہیں سُنا پس اس کو خوشخبری دو درد ناک عذاب کی ﴿٨﴾اور جب جانتا ہے ہماری آیات میں سے کچھ تو اس کو مسخری بنا لیتا ہے ایسے لوگوں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہوگا ﴿٩﴾ ان کے پیچھے جہنم ہے اور ان کو نہ فائدہ دے گا جو انہوں نے کمایا کچھ بھی اور نہ وہ جو انہوں نے بنا لئے اللہ کے علاوہ کارساز اور ان کے لئے بڑا عذاب ہوگا ﴿١٠﴾ یہ ہدایت ہے اور جو لوگ اپنے رب کی آیات کا کفر کرتے ہیں ان کے لئے درد ناک تکلیفوں کا عذاب ہے ﴿١١﴾ اللہ وہ ہے جس نے مطیع بنایا تمہارے لئے سمندر کو تاکہ اس میں کشتیاں چل سکیں اس کے حکم سے اور تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل اور تاکہ تم شکر گزار بنو ﴿١٢﴾ اور مطیع بنایا تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اپنی جانب سے تحقیق اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جو فکر کریں ﴿١٣﴾کہہ دیجئے ان کو جو ایمان لائیں کہ چشم پوشی کریں ایسے لوگوں کے لئے جو نہیں امید کرتے اللہ کے دنوں کی تاکہ جزا دے اس قوم کو اس کی جو وہ کرتے ہیں ﴿١٤﴾ جو اچھا عمل کرے گا تو اس کی ذات کے لئے ہے اور جو برا کرے گا تو اس کا ہی ہوگا پھر اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے ﴿١٥﴾ اور تحقیق ہم نے دی بنی اسرائیل کو کتاب اور حکم اور نبوت اور ان کو رزق دیا پاکیزہ چیزوں سے اور ان کو جہانوں پر فضیلت بخشی ﴿١٦﴾ اور دیں ہم نے ان کو واضح دلیلیں امر سے پس انہوں نے نہیں اختلاف کیا مگر علم آچکنے کے بعد باہمی بغاوت کی بنا پر تحقیق تیرا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اس کا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے ﴿١٧﴾ اور پھر ہم نے آپ کو اپنے امر سے ایک شریعت پر ٹھہرایا پس اس کی اتباع کرو اور نہ اتباع کرو نہ جاننے والے لوگوں کی خواہشات کی ﴿١٨﴾ تحقیق وہ تجھے اللہ سے کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتے اور تحقیق ظام لوگ بعض بعض کے دوست ہیں اور اللہ متقیوں کا دوست ہے ﴿١٩﴾ یہ باعثِ بصیرت اُمور ہیں لوگوں کے لئے اور ہدایت اور رحمت ہے یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے ﴿٢٠﴾ کیا خیال کرتے ہیں وہ جو کسب کرتے ہیں برائیوں کا کہ ان کو ہم ایسے لوگوں کی طرح جانیں جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے کہ ان کی زندگی اور موت برابر ہو؟ وہ بُرا فیصلہ کرتے ہیں ﴿٢١﴾ اور پیدا کیا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ اور تا کہ بدلہ دیا جائے ہر نفس کو اس کا جو اس نے کمایا اور نہ وہ ظلم کئے جائیں گے ﴿٢٢﴾ کیا تو نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اس کو جانتے ہوے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان و دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا تو اس کو اللہ کے سوا کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم سوچتے نہیں؟ ﴿٢٣﴾ اور کہنے لگے کہ نہیں مگر دنیاوی زندگی جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے حالانکہ اس کا ان کو کچھ بھی علم نہیں ہے بس وہ صرف گمان ہی کرتے ہیں ﴿٢٤﴾ اور جب ان پر پڑھی جائیں ہماری واضح آیتیں تو ان کو اور کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کہتے ہیں ہمارے باپ دادا کو زندہ کر لاؤ اگر تم سچے ہو ﴿٢٥﴾ کہہ دو اللہ تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو اکٹھا کرے گا قیامت کے دن کے لئے جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ﴿٢٦﴾ اور اللہ کے لئے ملک آسمانوں اور زمین کا ہے اور جس دن برپا ہوگی قیامت اس دن نقصان پائیں گے باطل پرست ﴿٢٧﴾ اور ہر اُمت کو گھٹنے ٹیکے ہوئے دیکھو گے کہ ہر امت کو اپنی کتاب کی طرف بلایا جائے گا اس دن تم کو بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے تھے ﴿٢٨﴾
یہ ہماری کتاب تمہارے خلاف حق بولتی ہے کیونکہ ہم لکھتے تھے جو تم کرتے تھے ﴿٢٩﴾ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کر گزرے تو ان کو ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہ ہی واضح کامیابی ہے ﴿٣٠﴾ لیکن جو لوگ کافر رہے (ان کو کہا جائے گا) کیا تم پر ہماری آیات نہ پڑھی گئی تھیں پس تم نے تکبر کیا اور تم مجرم لوگ تھے ﴿٣١﴾
اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں تو تم نے کہا ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے؟ ہم تو گمان ہی کرتے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی یقین نہیں ہے ﴿٣٢﴾ اور ان کے سامنے اپنی کی ہوئی برائی کا نتیجہ آجائے گا اور بدلہ مل جائے گا اس کا جو وہ مسخری کرتے تھے ﴿٣٣﴾ اور کہا جائے گا کہ آج ہم نے تم کو بھلا دیا جس طرح تم نے اس دن کی حاضری کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے ﴿٣٤﴾ یہ اس لئے کہ تم نے اللہ کی آیات کو مسخری بنا لیا تھا اور تمہیں زندگی ٔ دنیا نے دھوکا میں ڈالا تھا پس آج وہ نہ نکل سکیں گے اس سے اور نہ ان کو معافی دی جائے گی ﴿٣٥﴾ پس اللہ کے لئے حمد ہے جو آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور سب جہانوں کا رب ہے ﴿٣٦﴾
اور اسی کے لئے بزرگی ہے آسمانوں اور زمین میں اور وہی سب پر غالب اور حکمت والا ہے ﴿٣٧﴾


جلد 13انوارالنجف

سورہ الجاثیہ

یہ سورہ مکہ ہے اور اس کا دوسرا نام الشرعیہ بھی ہے یہ سورہ دخان کے بعد اُتری اور اس کی اۤیت نمبر 15مدنی ہے اور اۤیات کی کل تعداد بسم اللہ سمیت 38 ہے

جوشخص سورہ جاثیہ کو پڑھے گا بروز قیامت حساب کے وقت کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوگا اور اس کی شرم گاہ مستور ہوگی

بروایت ابوبصیر امام جعفر صادق علیہ السلام نےفرمایا جو سورہ جاثیہ کی تلاوت کرے گا وہ جہنم کی اۤگ نہ دیکھے گا اور نہ اس کےشعلوں کا پھڑکار سنے گا

خواص القراۤن سے منقول ہے جو شخص اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے وہ جابر وسرکش حکمران کے ظلم سے محفوظ رہے گا

اور اس کا رعب قائم ہوگا اور ہردیکھنے والے کی نظر میں محبوب ہوگا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جو شخص اس کولکھ کر اپنےپاس رکھے وہ ہر چغلخور کےشر سے محفوظ ہوگا اور اس کی غیبت نہ ہوگی اور نئے پیدا ہونے والے بچے کو اگر اسکا تعویز باندھاجائے تو وہ باذن پروردگار ہر اۤفت ومصیبت سے محفوظ رہے

البرہان


رکوع 17

توحید کا بیان

ان فی السموات یعنی جس طرح کوئی معمولی ہے معمولی مصنوع بغیر صانع کے نہیں ہوسکتا تو یہ اۤسمان وزمین اور ان میں بسنے والی ہزاروں اقسام کی مخلوقات اور شب وروز کا ردوبدل ہواؤں کا تغیر اور بارشوں کا نزول وغیرہ یہ سب بغیر کسی حکیم ومدبر اور خالق وصانع کے کیسے ہوسکتا ہے چنانچہ معصوم سے مختصر لفظوں میں اس کا استدالال یوں منقول ہے کہ جب اونٹ کی میگنی اونٹ کے گزرنے پر نشان قدم کسی جانےوالے پردلالت کرتے ہیں تو اتنا بڑا نظام عالم اپنے خالق حکیم پرکیونکر اس کا مصنوع اپنے صانع حکیم کی عظمت وحکمت وجلالت کا پتہ دیتاہے اور مسئلہ توحیدمسائل میں سے واضح مسئلہ ہے جس کا انکار سوائے سرکش وعنید کے اور کوئی نہیں کرسکتا ۔

واختلاف الیل ان کے اختلاف سے مراد یاتو ان کا گھٹنا بڑھنا ہے ایک دوسرے کے بعد انا جانا ہے اور یا نوروظلت کا فرق مراد ہے اور ہر صورت اپنےخالق حکیم اور صانع مدبر کے وجود کا پتہ دیتی ہے

من رزقاۤسمان سےاترنے والی بارش کو رزق سے تعبیر کیاہے کیوجہ اس کی بدولت زمین کی اۤبادی اور اسکی سرسبزی وشادابی رونما ہوتی ہے جس سے اللہ کی اکثر وبیشتر مخلوق کے رزق کا سامان فراہم ہوتاہے

تصریف الریح ہواؤں کی تصریف سےمراد یاتو شمال وجنوب اور صباء ودیور کی ہواؤں کا مناسب مواقع پر چلنا ہے یایہ مراد ہے کہ بعض ہوائیں رحمت کا پیغام لاتی ہیں اور بعض باعث عذاب بن کرچلتئ ہیں اور یہ سب قدرت پروردگار کاکرشمہ ہے

فبای حدیث یعنی اللہ کی فرمائشات اور اس کی اۤیات کے بعد اور کونسی شے ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے اور تلاوت کا اصل معنی ہے ایک کے بعد دوسری کو فورا اس کے پیچھے لانا چنانچہ تالی پیچھے اۤنےوالے کوکہاجاتاہے یہاںتلاوت اۤیات سے مراد ہے مسلسل اۤیات کا لانا اور اسی مناسبت سےقراۤن کے پڑھنے کو بھی تلاوت کہاجاتاہے ۔

ویل یہ بدوعاکاکلمہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جہنم میں ایک وادی ہے جس میں گرم پانی اور پیپ بہتاہے ۔

افاک اثیم ہر وہ شخص جو جھوٹا اور بہتان تراش ہو وہ افاک کہلاتا ہے یہ افک سے مبالغہ کا صیغہ ہے چنانچہ سیلمہ کذاب جس نے بنوت کا دعوی کیاتھاور اسکے بعد ہر وہ شخص جو نبوت کایاامامت کا ناحق دعوی کرے وہ اسکا مصداق ہے

واذاعلم ایسے لوگوں کی ندامت کی گئی ہے جودیدہ دانستہ طور پر حق کی مخالفت کرتے ہوئے لوگوں کو شبہات میں مبتلاکرتے ہیں چنانچہ ابوجہل کا مکہ میں یہی دستور تھا جبیہ ۤایت اُتری کہ گنہگاروں کے لئے دوزخ میں زقوم خوراک ہوگی تو اس نے کھجور پر مکھن ڈال کر لوگوں کوکہاکہ یہ وہ زقوم ہے جس سےہمیں محمد ڈراتا ہے اور یہ تو ہماری روز مرہکی خوراک ہے اسی طرح نضر بن حارث بھی لوگوںکو قراۤن کے مقابلہ میں ایرانی لوگوں کےقصے سناکر حضور سے منحرف کرنے کی کوشش کرتاتھا

عذاب مھین یعنی دینا میں ایسے لوگوں کےلئے عذاب ہے اور اس سے بڑاعذاب اس کے بعد جہنم ہے جس سے انکوکوئی شے نہ بچاسکے گی اور وراء کا لفظ لغاب اضدادہ میں شمار کیاجاتاہے کیونکہ اس کامعنی سامنے بھی ہے اور پیچھے بھی جس طرح مولا کا معنی اقا بھی اتا ہے اور غلام بھی اسی طرح مولا کامعنی دوست بھی ہوتاہے اور دشمن بھیاور قرء کا معنی طہر بھی ہوتاہے اور حیض بھی

رکوع 18


اللہ الذی بیان توحید کا تمہ ہے کہ تمہارےلئے بحری سفر کو اۤسان اور کامیا ب بنانے کےلئے اس نے پانی کو اس قابل بنایا کہ اس میں کشتیاں اور جہاز چل سکیں اس جگہ تسخیر سے مراد یہ ہے کہ اس کو ا س قابل بنایاکہ تم اپنی مرضی کے مطابق اس میں کشتیوں اور جہازوں کےذریعے سفر کرسکو اور بحر سےمراد پانی ہے اور بحری راستہ سے ہی انسان پوری دنیاکی سیر کرسکتاہے اور تمام دنیاکے ملکوں کےساتھ روابط قائم رکھنے کا یہی واحد ذریعہ ہے اور اسی پر ہی عالمی تجارت کا دارومدار ہے اور فضل سےمراد تجارت کے ذریعے سے رزق کمانا ہے اور اۤخر میں فرمایا کہ یہ سبکچھ اس لئے ہے تاکہ تم احسانات پروردگار کو سمجھو اور انکا شکر ادا کرو ۔

جمیعا یعنی اۤسمانوں اور زمین کی طاقتوں کا تمہارے فوائد کے لئے مطیع فرمان ہونا سب اس اللہ ہی کی جانب سے ہے اور اس میں فکر ونظر کرنیوالوں کےلئے توحید خالق کی دلیلیں ہیٰں اور بعض لوگوںنے اس کو منتہ پڑھا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ یہ سب اسی کا احسان ہے یغفرو ا یعنی وہ لوگ جو اللہ کے عذاب کا ڈر نہیںرکھتے اور نہ وہ اللہ کے انعام کابروز محشر طمع رکھتے ہیں پس اگر مومنوں کو تکلیف پہنچائیں تو اۤپ مومنوں سےکہدیں کہ وہ صبر سے کام لیں اور جوابی کاروائی سے باز رہیں کیونکہ اللہ خود ہی ان کو اعمال کی جزا دیگا تفسیر برہان میں مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام نے اپنے ایک غلام کومارنےکا ارادہ فرمایااور فورا یہ اۤیت پڑھلی قل للذین الخ چنانچہ تازیانہ رکھ دیا اور مارنے کا ارادہ ملتوی کردیا غلام یہدیکھ کر رونے لگا اپنے نے فرمایا کیوں روتاہے اس نےعرض کی حضورؐ میں ان لوگوں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ایام کی امید نہیں رکھتے اۤپ نےفرمایا کہ تو اللہ کے اۤیام یعنی اس کی سزا وجزا پر تو ایمان رکھتا ہے تو اس نےعرض کی جی ہاں اۤپ نے فرمایا جاؤ قبر پیغمبر پر میرے لئے امرزش کی دعا کرو اور میری طرف سے اۤزاد ہو ۔

بینت من الامرامر سے مراد احکام تورات ہیں یعنی تورات کے مفصل احکام بنی اسرئیل کودئے گئے جن میں حضرت رسالتماب کی نبوت کی تصدیق تھی اور ان لوگوں کو اۤپکی نبوت کاازراہ تورات پورا علم تھا لیکن جب اۤپ تشریفلائے تو اۤپس کی سرکشی اور بغاوت کی بنا پر انہوں نے حضور کی نبوت کا انکار کیا اور اۤپ کی دعوت کابائیکاٹ کردیا یایہ کہ اپنی ریاست وشان کی خواہش کے ماتحت اۤپکی مخالفت شروع کردی ۔

ثم جعلنک یعنی حضرت موسی کے بعد ہمنے اۤپ کو امر ونہی کی ایک شریعت پر ٹھہرایا اور شریعت کا معنی ہے ایسا طریقہ یاسنت جس پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچ جائے ۔

لایعلمون ان سےمراد یہودی بھی ہوسکتے ہیں جنہوں نےتورات کی تحریف کرکے اس کے احکام بدل ڈالے اور اپنی خواہشات کے پیچھے ہو لئے اور مشرکین بھی مراد ہوسکتے ہیں جوصرف اپنی خواہشات کے ماتحت ابائی طریقہ کوسینے سے لگائے ہوئے تھے ۔

اجتراحواالسیات تفسیر برہان میں اس کے مصداق عتبہ اور شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے اور ولید بن عتبہ ہیں اور امنوا کے مصداق حضرت حمزہ بن عبدالمطلب حضرت عبیدہ بن حارث اور حضرت علی بن ابی طالب ہیں ۔

سواءاس کو بعض نے مرفوع پڑھا ہے اور بعض نے منصوب پڑھا ہے منصوب پڑھنے کی صورت میں نجعل کا دوسرا مفعول ہوگا اور محیاھم نجعل کے مفعول سے بدل ہوگا ۔

رکو ع 19

افرئیت اس کے معنی میں تین اقول ہیں الا سے مراد ین یعنی ایسے بندے موجود ہیں جنکادین خواہش نفس ہے پس خدااور رسول کی ہدایت پر عمل کرناانکےنزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں کیونکہ انکا دین صرف یہی ہے کہ ہر قید وبند سےمکمل ازاد ہوکر جوچاہیں کرگزریں ۔

الہماننے سے مراد اطاعت کرنا یعنی بعض اۤدمی ایسے ہیں کہ اپنی خوہش نفس کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ اپنی خواہش نفس کے اسقدر پیروکار ہیں جس طرح خداکی اطاعت کرنی چاہیے تھی اور اسجگہ یہ سارے معانی مراد لئے جاسکتے ہیں چنانچہ اجکل مسلمان میں اسلامی عقائد واعمال کی یہی حالت ہے اور اکثریت کا رحجان اس قسم کا ہے کہ جو عقیدہ وعمل طبعیت کو پسند اگیا اور خواہش نفس نے اپنالیا اس کو دین سمجھ لیا اور جس چیز کو خواہش نفس نے نہ اپنا یا اس کو خلاف السلام قرار دیدیا اور بہت سوں کو ہمنے دیکھاہے جو اسلام سےزرہ بھر رابطہ نہیں رکھتے سوائے اسکے کہ مسلمانوں کے گھر میں وہ پیداہوئے تھے اور نام بھی مسلمانوں جیساماں باپ نے رکھ دیا تھا اس کےعلاوہ اصولا وفرعا اسلام سے صرف بیگانہ نہیں بلکہ ہر وقت اسلام دشمنی کا دھواں انکےدل ودماغ اور عمل وکردار سے بلند ہوتارہتاہے تاہم وہ اپنے تئیں اسلام کا ٹھیکہ دار سمجھتے ہیں اور اپنی کچ دماغی کی بدولت جو کچھ انہون نے مغرب والوں سے یامغرب نوازلوگوں سے اسلام کی بات سنا ہے اسی پر ہی وہ مطمئن ہیں اور اسلام اسی کو ہی سمجھتے ہیں جس کا تصور انکے ذہن میں ہے ۔

عام تو عام خاص طبقہ میں بھی یہ بیماری ہے اور بعض شیعہ معزز گھرانوں میں بھی اسلام مسلمہ قوانین وضوابط کے مقدس جسمکو مغربیت کے پالش شدہ تخیلاتی ناخنوں سے کرید اور انوچاجانے لگاہے اہل مغرب کے تاثرات کو اپنا نے والی نئی پود احکام اسلامیہ کی صرف تارک نہیں بلکہ دشمن نیتی چلی جارہی ہے اور خواہش نفس کی پوجا عام سےعام تر ہوتی جارہی ہے اور یہ سب کچھ گھروں میں اسلامی تعلیمات کے فقدانکا نتئجہ ہے اگر گھروں میں بچوں کواسلام سےاگاہ کیاجاتا اور اسلام کے ضروی مسائل سے انکو روشناسکردیا جاتا تو یقینا نئی پودکا مستقبل اس طرح تباہ نہ ہوتا ۔

اول تو ہر شخص ہر مسئلہ کو اپنی خوہش پرڈھالنے کے لے غور وفکر کرتاہے اور ہر شخص کا ذہن ہر مسئلہ کا حل اپنی خوہش کی روشنی میں تلاش کرتا ہے لہذا اس کو ذہنی سکون اس وقت نصیب ہوتاہے جبمسئلہ مطلوبہ کا حل اسکی خوہش کےعین مطابق ہو اور اسکے جذاب کا ترجمان ہو پس خواہش کے مطابق نہ ہونیوالا حل اس کے لئے نہ باعث سکون بنسکتاہے اور نہ وہ مسئلہ اس کے لئے قابل قبول قرار پاسکتاہے جب انسان اپنی خواہش پر اپنے خالق ومالک کی حکومت مطلقہ کو تسلیم کرلے تو اس کو چارونا چاراپنی خواہش کےفیصلہ پر خدائی فیصلہ کو ترجیح دینا پڑتی ہے اور اس صورت میں اس کا سکون قلب اور اطمینا ن نفس خواہش کی مطابقت سے نہیں بلکہ خالق کی اطاعت میں ہی حاصل ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اگر چہ پدری محبت کی بناپر خوہش تھی کہ اسمعیل جوان ہو اور پھلے پھولے لیکن جب اللہ کی حرف سے بزریعہ وحی قربانی کا حکم ملا تو پدری محبت کے جذبات اللہ کی اطاعت کے بلند جزبہ کے مقابلہ میں خود بخود فرد ہوگئے اورسکون نفس اور اطمینان قلب کی منزل اللہ کی اطاعت میں امتحان سےکامیابی حاصل کرنے میں مضمر تھی جس کو انہوں نے پالیااور قیامت تک کے لئے اۤنے والی نسلوں کو اپنی خوہشات کو قربان کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے سامنے جھکناسیکھاہے اور یہ امر فطری ہے کہ اپنے سے مافوق کاتصور خواہش پر غالب ہواکرتاہے مثلا کوالالچی جانور ہے اگر اس کےسامنے ایک طرف گوشت کا ٹکڑا ہو اور دوسری طرف کوئی اۤدمی اس کو گرفتار کرنے کےلئے اسکی تاک میں ہوتا وہ اپنی خواہش کو پورا کرتے ہوئے کبھی اپنے اپکو شکاری کے حوالہکرنا پسندنہکرے گا بلک اپنی خواہش اور فطری عادت عرض کو چھوڑنا پسندکرے اسی طرح سب حیوان مافوق کی حکومت کا تصور کرکے کبھی ایسا اقدام نہیں کریں گے جو ان کے لئے معرض خطر ہو پس اگر انسان کا ذہن یہ صحیح تصور کرے کہ مجھے کوئی پوچھنے والا بھی ہے تو یقینا اسے اپنی خواہشات کی قربانی دینا ہوگا پس خدائی احکام کو نظر اندااز کرکے خواہش نفس کے فیصلہ کو اپنا نا اپنی خوہش کو خداماننے کے مترادف ہے ۔
اللہ کےخاص بندے نبی یاامام چونکہ اپنے اوپر اللہ کی حکومت متعلقہ کو بدل وجان تسلیم کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے انکی خوہش نفس ہمیشہ مغلوب اور اطاعت خدا ان پر غالب رہتی ہے پس وہمعصوم ہوتے ہیں اور وہ ایک لمحہ کےلئے بھی حکم خدا کی مخالفت کا تصور نہیں کرتے چہجائیکہ اس کی طرف اقدم کریں۔ 

واضلہ اللہ یعنی خدانے اسکو گمراہی مین ڈھیل دے دی یایہ کہ خدانے اسکو گمراہی کا بدلہ دے دیا ہے ا
ور اللہ کو اس کے انجام بد کا علم تھا

ختم علی سمعہ کان اور دل پر مہر اور اۤنکھ پر پردے کا بیان اور اس کی مکمل تشریح وتفسیر نیز قضاء وقدر کے مسئلہ کی پوری وحاحت تفسیر کی دوسری جلد سورہ بقرہ کے رکوع 1کی تفسیر میں گزر چکی ہے

ومایھلکنا الاالدھر یعنی خواہش نفس کی پیروی کو دین سمجھنے والے اور نفس کے احکام کی اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کےدلوں میں عقیدہ تو حید راسخ نہ ہو پس دودنیاکی عیش وعشرت کو ہی زندگی کی کامیابی قرار دیتے ہیں لہذاان کی مطمح نظر اسی دنیاوی زندگی تک ہی محدود ہے اور وہ یہی سمجھتے ہیں کہ انسان کی پیدائش اور انکی موت وحیات زمانہ کی رفتار کے ماتحت ایک طبعی امر ہے جو ہمیشہ سے چلا ارہاہے اور یہ سلسلہ چلتارہے گا ورنہ اگر انکو یہ خیال ہوتاکہ اس عالم کاکوئی خالق اور مدبر ہے جس نے اپنے حسن اختیار سے ان کو کتم عدم سےشرف وجود بخشا اور اسی کے حسن تدبر سے ہی یہ سارا نظام ارضی وسماوی بطریق احسن جاری وساری ہے پس اس عالم کی جزئیات کا عم کے بعد وجود میں انا خالق کی ازلیت کی دلیل ہے اور ان سب کا تغیر پزیر ہونا اس کےعدم تغیر کی دلیل ہے اور ان سب کے زوال دفنا سے اس کےلازوال ہونے اور دیمومیت کا پتہ چلتاہے پس وہ صفات خلق ہے بلند وبالا ہے اور تمام مخلوق جس طرح یجاد میں اس کی صنعت کی محتاج ہے اسی طرح بقاء میں اس کے حسن تدبیر اور فضل وکرم کی رمین منت ہے پس جس طرح ابتداء خلقت اور پوری زندگی میں کائنات اس کی موہون احسان ہے اسی طرح موت اور فنا کے بعد سب کی اس کی بارگاہ قدرت میں حاضری ہوگی اور پھر سب کو اس کے فیصلے کےسامنے سرخم کرنا ہوگا پس اگر یہ تصور قائم ہوجائے اور اس عقیدہ کو پختگی سے تسلیم کرلیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسانیت چین واطمینان کا سانس نہلے اور ہر انسان اپنے صحیح مقصد کی طرف گامزن نہ ہو پس انسانوں کی بے راہروی ظلم واستبداد بلکہ جملہ معاشرتی خرابیوں کی واحد جڑ عقیدہ توحید سے بغاوت ہے اور اس مقصد کی مزید وضاحت ہماری کتاب اسلامی سیاست میں ملاحظہ فرمادیں ۔

خداوندکریم نے ان اۤیات مجیدہ میں مشرکین مکہ اور تمام دشمنان خداکی غلط کاریوں کی وجہ اسی چیز کو بیان فرمای اہے کہ یہ لوگ دنیاوی زندگی کو ہی اپنا اۤخری نقطئہ کامیابی قرار دیتے ہیں اور موت وحیات کو رفتار زمانہ کا تقاضا قرار دے کر حقیقت سے انکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور خدا چونکہ بندوں کو مجبور نہیں کرتا بلکہ اس نےصاف فرمایاہے کہ دین کے معاملہ میں کسی کے لئے کوئی مجبوری نہیں لہذا جو ایمانلائے تو سوچ سمجھ کر اپنے اختیار سے ایمان کو قبول کرے اور جو انکار کرے تو بےشک اپنی مرضی سے جہنم میں جائے اللہ نے کفار کے دہری عقیدہ کو جہالت کانتیجہ قرار دیا ہے اور اس کو دلیل وبرہان سے باطل فرمایاہے

ماکان حجتھم یعنی جب عقلی طور پر اولہ توحید کے ذریعے سے انکو قائل کرایا جائے کہ صرف اللہ ہی ہے جو مارنے جلانے اور جملہ امور تکوینیہ کے انجام دینے پر قادر ہے لہذا خواہش نفس کی پیروی کی بجائے اس کی اطاعت ہی واجب ولازم ہے کیونکہ مرنے کے بعد پھر ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضری ہو گی اورا اعمال کی باز پرس ہوگی اور صرف زمانے کا گزرنا اور شب وروز کا متبادل انتظام ہی ہماری زندگی وموت کا موجب نہیں بلکہ یہ نظام اورجملہ ذی روح مخلوق کا نظام موت وحیات اس اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے جو سبکا خالق ومالک ہے اور اس ظاہری زندگی تک یہ معاملہ محدود نہیں بلکہ موت کے بعد ایک دفعہ پھر زندہ ہوکر اس کےدربار میں کھڑا ہونا ہے تو ان امور کاکو ئی دوسرا جواب تو ان سے بن نہیں اتا صرف یہکہہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ مرنے کے بعد دوبار ہ زنداہ کرسکنے پر قادر ہے تو دنیا میں ہمارے گزشتہ اکابر کو زندہکرادیجئے تاکہ ہم روبرو ہوکر انسے دریافت کرلیں اگر وہ لوگ اپ کی تصدیق کردیں گے تو ہم بغیر کسی حیلہ وحجت کے اۤپ کی بات کو تسلیمکرلیں گے مشرکین مکہ چونکہ ازراہ عباد اس قسم کی باتیں کرتے تھے اس لئے ان کے مطالبہ کو پورا کرنا لازم نہسمجھ اگیا کیونکہ یہ مطالبہ انکا پہلا مطالبہ نہیں تھا بلکہ کسی وقت کہتے تھے کہ اگر خدا قادر ہے تو وہ درخت خود چل کر اپ کی تصدیق کرے جب درخت نے گوہی دی تو کہنے لگے درخت کا نصف حصہ چل کر اۤئے اور ایک نصف اپنی جگہ پر کھڑا رہے چنانچہ ایک نصف حسہ درخت کا ایا اور وہ گواہی دے کر واپس گیا اور اپنے بقیہ حصہ سے جاملا تو انہوں نے کچھ اور مطالبہ کردی ااور سب کچھ دیکھنے کے بعدکہہکہہ دیاکہ یہ سبجادو ہے پھر ایک دفعہ باہمی مشورہ کے بعد یہ سوچاکہ چونکہ اۤسمان پر جادو کا اثر نہیں ہوتا لہذا حضور ﷺ سے چاند کے ٹکڑے ہونے کا مطالبہ کردیا جب یہ بات بھی پوری ہوگئی تو کہنے لگے ان کا جادو اسمان پر بھی اثر کرتاہے تو کسی وقت شاعر کہہ دیاکسی وقت دیوانہ کہنا شروع کردیا اور عوام النا کو اسلامی تعلیمات سے روکنے کےلئے کوئی نہ کوئی شبہ دالنا اور اعترض کرنا انکی عادت بن گئی تھی پس کسی وقت کہہ دیتے تھے اگر خداقارد ہے تو مکہ کی سرزمین کو زر خیز سرزمین سے بدل دے یہاں نہریں جاری ہوں اور سرسبز لہلہاتے ہوئے باغات پیدا ہوجائیں کسی وقت کہتے تھے کہ مکہ کی پہاڑیوں کو سونے سے بدل دیجئے اور انکےسوالات میں سے ایک یہ بھی تھاکہ ہمارے گزشتہ اکابر زندہکردیجئے تاکہ ہم ان سے اپ کے متعلق تسلی کرلیں اور یہ سب اگر تسلی کی خاطر اوصاف دلی اور حقیقت طلبی کی بناپر ہوتا تو ضرور انکا مطالبہ پورا کیاجاتا لیکن چونکہ ازراہ عناد انکےسوالات تھے اس لئے صرف اولہ عقلیہ پر اکتفاکی گئی ۔

رکوع 20

جاثیہ یہ جثو سے ہے یعنی گھٹنوں کے بل بیٹھنا جس طرح گزشتہ زمانہ میں مقدمہ کے فریقین قاضی ومجسٹریٹ کےسامنے بیٹھا کرتے تھے مقصد یہ ہے کہ بروز محشر عدالت پروردگار میں تمام لوگ اسی طرح پیش ہونگے جس طرح عدالت میں پیش ہونے کا طریقہ ہے

الی کتابھا اس جگہ کتاب سے مراد یاتوکتاب سماوی ہے یعنی ہر اُمت سے اپنی کتاب کی اتباع کے متعلق باز پرس ہوگی اور یایہ کہ کتاب سے مراد اعمال نامہ ہے یعنی ہر امت کی پیشی کے وقت انکےسامنے انکااعمال نامہ بھی حاضر کیاجائے گا اور کہاجائے گا کہ یہ ہماری کتاب یعنی تمہارا وہ اعمال نامہ جو ہمارے فرشتوں نے توٹ کیا تھا بالکل صحیح اندرجات پر مشتمل ہے اور اس میں وہی کچھ لکھاگیا ہے جو تم نے کیاتھا

اور بعض روایات میں ہے عنوان صیحفتہ المومن حب علی بن ابی طالب یعنی مومن کے صحیفہ اعمال کا عنوان حضرت علی کی ولا ہوگا پس واقعی نیک بخت ہے وہ انسان جو زندگی میں حضرت علی علیہ السلام کے نقش قدم پر ہو اور انکی فرمائشات پر عمل کرے کیونکہ حضرت علی کی اتباع کرنے والا یقینا جنت میں داخل ہوگا اور اس کی نافر مانیکرنے والا جہنم میں جائے گا اور حضرت علی علیہ السلام کے قسیم النار والجنہ ہونے کا بھی یہی مطلب ہے

ان نظن الاظنا یعنی جب کفار کو دنیا میں کہاجائے گا کہ قیامت اۤنے والی ہے تو صاف کہتے ہیں کہ ہمیں اس کا کوئی یقین نہیں اس جگہ ظن سےمراد شک ہے اور انسانی معاشرہ کی جملہ خرابیوں کی جڑ جس طرح عقیدہ تو حید کی کمزوری ہے اسی طرح قیامت کے عقیدہکی کمزوری کو بھی اس میں بڑا دخل ہے کیونکہ جب تک باز پرس کا یقین نہ ہو اس وقت تک برائیوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے پس انسان کی بقاء اور ارتقا کے لئے اور اس کی تمدنی زندگی کی اصلاح کےلئے جونظریہ حیات اور ضابطہ اخلاق وکردار اسلام نے پیش کیا ہے اس سے بہتر پیش کرنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور جولوگ امن وسکون کو اسلامی طرز عمل سے ہٹ کر اپنے بنائے ہوئے امین وقوانین کی روشنی میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں ان کا یہ سہانا خواب ہمیشہ تشنہ تعبیر رہے گا

اتخذتم اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگدین سے برگشتہ ہوتے ہیں وہ ہردور میں ایات قرانیہ اور احکام اسلامیہ کا تمسخر اڑایا کرتے ہیٰں اور زندگانی دیناکی عیش وعشرت انکو باز پرس سے غافل کردیتی ہے خداوندکریم جملہ مسلمانوں کو بالخصوص محمد واۤل محمد علیہ السلام کی پیروری کا دم بھرنے والوں کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور خداوندکریم میری محنت کو شرف قبول عطافرمائے اور میرے اور میرے والدین کے لئے اس خدمت کو ذخیرہ اۤخرت قرار دے

والحمدللہ رب العالمین
22مارچ سہ1973ء بروز جمعرات صبح 8 بجے مطابق 16 ماہ صفرسہ1393 ھ ختم ہوئی
الجزء السادس والعشرون )

Post a Comment