Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

surah al imran | read online arabic urdu text PDF| tafseer ruku 9 | masla ilm ghaib | سورہ آل عمران | رکوع نمبر 9 | مسئلہ علم غیب

surah al imran | read online arabic urdu text PDF| tafseer ruku 9 | masla ilm ghaib | سورہ آل عمران | رکوع نمبر 9 |  مسئلہ علم غیب

surah al imran | read online arabic urdu text PDF| tafseer ruku 9 | masla ilm ghaib | سورہ آل عمران | رکوع نمبر 9 |  مسئلہ علم غیب


ٱلَّذِينَ ٱسْتَجَابُواْ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ ٱلْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَٱتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ 
جن لوگوں نے قبول کیا اللہ اور اس کے رسول (کی دعوت) کہ وہ بعد اس کے کہ لگے ہوئے تھے ان کو زخم ان میں سے جنہوں نے نیکی اور تقویٰ اختیار کیا ان کےلئے اجر عظیم ہے ﴿١٧٢﴾

ٱلَّذِينَ قَالَ لَهُمُ ٱلنَّاسُ إِنَّ ٱلنَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَكُمْ فَٱخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ وَنِعْمَ ٱلْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾ 
وہ جن کو کہا لوگوں نے تحقیق لوگ جمع ہو چکے ہیں تمہارے لئے پس ڈرو ان سے تو ان کا ایمان زیادہ ہوا اور کہنے لگے ہمیں کافی ہے اللہ اور وہ خوب جائے اعتماد ہے ﴿١٧٣﴾

فَٱنْقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوۤءٌ وَٱتَّبَعُواْ رِضْوَانَ ٱللَّهِ وَٱللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾
 پس پلٹے ساتھ نعمت کے اللہ سے اور فضل کے کہ نہ چھوا ان کو تکلیف نے اور تابع ہوئے رضائے خدا کے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ﴿١٧٤﴾

إِنَّمَا ذٰلِكُمُ ٱلشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنتُمْ مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾
 بجز اس کے نہیں کہ یہ شیطان ڈراتا ہے (مومنوں کو) اپنے دوستوں سے پس ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ﴿١٧٥﴾

وَلاَ يَحْزُنْكَ ٱلَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِى ٱلْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّواْ ٱللَّهَ شَيْئاً يُرِيدُ ٱللَّهُ أَلاَّ يَجْعَلَ لَهُمْ حَظّاً فِى ٱلآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٦﴾
 اور تمہیں غم نہ کھانا چاہیے ان کا جو تیزی کرتے ہیں کفر میں تحقیق وہ ہرگز ضرور نہیں دے سکتے اللہ کو کچھ بھی چاہتا ہے اللہ کہ نہ کرے ان کا حصہ آخرت میں اور ان کےلئے عذاب بڑا ہے ﴿١٧٦﴾

إِنَّ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُاْ ٱلْكُفْرَ بِٱلإِيمَانِ لَنْ يَضُرُّواْ ٱللَّهَ شَيْئاً وَلهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿١٧٧﴾
 تحقیق جن لوگوں نے خرید کیا کفر کو ایمان کے بدلے میں ہر گز ضرر نہیں دے سکتے اللہ کو کچھ بھی اور ان کے لئے عذاب درد ناک ہے ﴿١٧٧﴾
وَلاَ يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لِّـأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُوۤاْ إِثْمَاً وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٧٨﴾ 
اور یہ خیال نہ کریں وہ لوگ جو کافر ہیں کہ ہمارا مہلت دینا ان کی بہتری کے لئے ہے تحقیق ہمارا ان کو مہلت دینا اس کا انجام یہ ہے کہ وہ گناہوں میں زیادتی کرتے ہیں اور ان کےلئے ذلت آمیز عذاب ہے ﴿١٧٨﴾
مَّا كَانَ ٱللَّهُ لِيَذَرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَآ أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ ٱلْخَبِيثَ مِنَ ٱلطَّيِّبِ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى ٱلْغَيْبِ وَلۤكِنَّ ٱللَّهَ يَجْتَبِى مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَآءُ فَآمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٩﴾
 یہ نہیں کہ اللہ چھوڑ دے مومنوں کو اس حالت پر جس پر تم ہو یہاں تک کہ وہ تمیز دے پلید کو پاک سے اور یہ بھی نہیں کہ اللہ تمہیں مطلع کرے غیب پر البتہ اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقوٰی اختیار کرو گے تو تمہارے لئے بڑا اجر ہے ۔ ﴿١٧٩﴾


جب ابوسفیان اوراسکے ساتھی واپسی پر مقام روحادتک پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی کہ ہم نے مسلمانوں کاقتل عام کرکے نہ ان کو لوٹا نہ حضرت محمد کو قتل کی اپس وہیں سے واپسی کاارادہکیا جب یہ خبر حضور کو پہنچی تو اپ نے صحابہ کو جمع فرمایا اورحکم دیا کہ کفار کاتعاقب کیا جائے اورجو لوگ شریک جنگ احد تھے انہیں کو دوبارہ تیار ہونا چاہیے پس اپ ستر صحابہ کے ساتھ روانہ ہوئے جواکہاکثر زخمی تھے جب حمرااءالاسد پر پہنچے تو ادھر سے معبداخزاعی کا گزر ہوا اورقبیلہ خزاعہ پورے کا پورا اپ کا ہمدارد تھ اورمکہ میں بھی ان کا اپ سے میل جول رہتا تھا گر چہ یہ شخص مشرک تھ الیکن اس نے حضور سے سابقہ ہمداردی کی روایت کو دہرایا وہاں سے گزر کر ابوسفیان کے پاس پہنچا اس نے احوال پرسی کی تو اس نے بیان کیا کہ حضرت محمد مصطفے ایک لشکر گراں کے ساتھ تیرے تعاقب مٰں ہے اروہ ابھی پہنچنے والے ہیں پس کفار قریش پر رعب طاری ہوگی اوروہیں سے مکہ کا رخ کیا ادھر جناب رسالتماب نے حمراءالاسد پر پہنچ کرصحابہ سے فرمای کہ کون لوگ ہے جواب کفارکی خبرلائے سب خاموش ہے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے باوجود کافی زخموں کے لبیک کہی اپ نے فرمایادیکھنا اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہوں تو سمجھنا کہ ان کا رخ مدینہ کی طرف ہے اوراگر اونٹوں پر سوار ہوں تو وہ مکہ کی طرف جارہے ہوں گے حضرت علی گئے اورواپس اکر بتایا کہ وہ اونٹوں پر سوار ہوکر جارہے تھے پس اپ نے صحابہ کوواپسی کا حکم دیا اورخداکی نعمت کاشکرادا فرمایا۔ 

انماذلکم الشیطن آیت مجیدہ کا ایک معنی وہ اہے جو نیچے ایت کے مذکور ہے اوردوسرا معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ شیطان اپنے دوستوں کوجو منافق ہیں جہاد سے ڈراتا ہے اوران کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے جس کی وجہ سے وہ رسول کی اتباع چھوڑ کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں پس مومنوں کو خطاب ہورہا ہے کہ تم ہرگز کفار سے خوف نہ کیا کرو تحت الفظی ترجمہ کے ماتحت یخوف کامفعول اول مومنین محزوف ہے اوراس معنی کے لحاظ سے اس کامفعول ثانی اعداءمحذوف ماننا ہوگا۔ 

ولایحزنک بعض کہتے ہیںکہ ایک قوم مرتد ہوگئی جس کاجناب رسالتماب کو غم تھا وربعض کہتے ہیں کہ عامتہ الکفار کے کفر سے اپ طور خاطر ہوتے تھے پس بطور تسلی کے یہ ارشاد فرمایا۔ 

لن یضرواللہ اس کو دوبارہ تکرار سے بیان فرمایا ہے کیونکہ پہلی ایت میں صرف جناب رسالتماب کی تسلی مقصود تھی کہ مسارعت فی الکفر کرنے والوں پر غم نہ کیجئے کیونکہ وہ میرا کچھ نہین بگاڑ رہے ہیں اوردوسری ایت میں زیادہ تعمیم فرمادی کہ جو لوگ بھی کفر کو اختیار کرتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہین بگاڑ سکتے خواہ وہ کفر میں مسارعت کرنے والے ہوں یاایسے نہ ہوں اوریہ ایت پہلی ایت کے معنی کی تعلیل ہے یعنی جب مطلق کافر بالعموم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو یہ مسارعت کرنے والے اس کا کیونکر کچھ بگاڑیں گے تفسیر مجمع البیان میں مضرت اوراساعت کے درمیان یہ فرق بیان کیا گیا ہے کہاساعت ہمیشہ قبیح ہوا کرتی ہے اورمضرت کبھی قبیح اورکبھی حسن ہوتی ہے جب استحقاق یاامتحان یانفع عظیم کے لئے ہواکرتی ہے

اہلسنت کے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں لام کولام غرض قرار دیا ہے یعنی خداکا کفار کو مہلت دینا اوران کیعمروں کولمباکرنا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ گناہوں میں ترقی کریں تاکہ عذاب کے حقدار اورزیادہ بنیں گویا انکے گناہ خدا کے ارادہ سے ہوا کرتے ہیں لیکن مذہب امامیہ کے اصول کے ماتحت فعل قبیح کےلئے کسی کو مہلت دینا بھی برا ہے اورخداجملہ برائیوں سے اپاک ہے بلکہ خدا مہلت دیتا ہے کہ ان کی توبہ اوراعمال صالحہ کے مواقع زیادہ سے زیادہ دستیاب ہوں لیکن وہ لوگا خود اپنے اختیار سے راہ حق کو چھوڑتے چلے جاتے ہیں جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ان پر گناہوں کا بوجھ زیادہ ہوتا جاتا ہے اوروہ مستحق عذاب مہین کے ہو جاتے ہیں پس اس صورت مٰں یہ لام غرض کے لئے نہیں بلکہ لام عاقبت ہے

علی ماانتم علیہ یاتو یہ خطاب کفار ومنافقین کےلئے ہے کہ خدا مومنوں کو مبہم حالت میں نہیں چھوڑ ےگا بلکہ اے گروہ کفار ومنافقین وہ تو ایسے مواقع امتحان وزمائش کےلئے لائے گا جس سے کھر ا کھرا اورکھوٹاکھوٹا ہو جائے گا اورمومن ومنافق ایک دوسرے سے صاف طور پر ممتاز ہوجائیں گے یایہ کہخطاب مومنین کوہے اورغیب سے خطاب کیطرف التفات کیا گیا ہے جس طرح کلام فصحاء مٰں بلکہ خود قران مجید میں اسی طرح ہوا کرتا ہے پس مقصد یہ ہے کہ ایمان کا دعوی کرنے والوں کو خداان کے زبانی دعوے پر نہیں چھوڑے گا بلکہ حسب موقع ان میں سے طیب وخبیث کو الگ اکردیتا ہے جس طرح جنگ احد میں ہو ا

مسئلہ علم غیب

   ماکان اللہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مومن ومنافق کی تمیز کےلئے خدا مومنوں کو لوگوں کے دلی حالات کا علم کیوں نہیں دے دیتا تاکہ وہ اس علم کے ذریعہ سے کھوٹے کی خود پہچان کرلیتے اورجنگ وجدال کی جان لیوا مصیبتوں سے ان کی گلوخلاصی ہوجاتی ۔ 

تو اس کا جواب یہ ہے کہ امتحان وازمائش سے جس طرح مومن ومنافق کی تمیز ہوتی ہے اسی طرح صبر وثبات سے مومنوں کے درجات میں اضافہ ہوتا ہے اورثانیا مصلحت خداوندی یہ ہے کہ انجام کا علم اس نے لوگوں سے پوشیدہ کررکھا ہے اورنظام عالم کی بہتری اسی میں ہے چنانچہ اس ایت مجیدہ میں ارشاد ہے کہ خداایسا نہں کرتا کہ تمہیں علم غیب عطاکردے وہ صرف اسی کی اپنی ذات کے شایان شفان ہے البتہ وہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے اس کو غیب کی باتوں سے مطلع فرماتا ہے اوراس کے بعد یہ ضروری نہیں خہ وہرسول اپنی امت کو علوم غیبیہ کی اطلاع دیتے رہیں بلکہ امت پر فرض ہے کہ اللہ اوراس کے رسول کی ہر ابت پر ایمان لائیں اوران کے ہر فرمان کو دل میں جگہ دے کر اطاعت شعاری کی کوشش کریں پس امت کو خداورسول کے کسی فیصلہ پر بھی کیوں کہنے کی اجازت نہیں کیونکہ ہرحکم کی مصلحت بتانا ان کے عہدہ میں نہیں ہے

مطلب کی مزید وضاحت کےلئے یوں سمجھئے کہطبقات موجودات مٰں سے حیوان کو نبات وجماد پر فوقیت ہے کیونکہ اس میں ایک حس موجود ہے جس سے وہ تہی دامن ہیں اورانسان کو عام حیوان سے برتری حاصل ہے کہ اس میں ایک ایسا جو ہر موجود ہے جس سے وہخالی ہے پس روح نباتی سے وہ شعور غائب ہے جس کو روح حیوان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اگر روح نبات کے مقابلہ میں شعور حیوانی کو پھیلایا جائے تو ایسا معلوم ہوگا کہ نبات کے مقابلہ میں حیوان کے پاس علم غیب کاایک بے پناہ ذخیرہ موجود ہے جسے روح نباتی اپنے تصور میں بھی نہین لاسکتا اسی طرح روح حیوانی سے ایک شعور غائب ہے جس کو روح انسانی اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اوراگر روح حیوانی کے سامنے شعور انسانی کو بسط دیا جائے اورعلوم وفنون میں اس کی دسترس ومہارت اورعقلی دنیا میں اس کی عظیم الشان فتوحات اورتسخیر موجود ات کےلئے اس کی مناسب موزوں اوربرمحل اقدامات اوربظاہر ناشدنی امور پر اس کا ہمہ گیر تسلط وغیرہ کو سامنے لایا جائے تو ظاہر ہے کہ روح حیوانی کے مقابلہ میں انسان کلی طور پر علم غیب کا مالک نظر اتا ہے اوراس کی ان غیبی فتوحات کا روح حیوانی تصور تک نہیں کرسکتا۔ 

اب اگے بڑھئے انبیاءمیں روح القدس اورشعور قدسی کا جو جوہر موجود ہے اس سے یقینا عام انسان کو تاہ دست ہے منازل ارتقاءکی ترتیب سے روح نبات روح حیوان اورروح انسان میں اس کے مختص شعور کے لحاظ سے فرق کی جو پوزیشن ہے اسی لحاظ سے شعور انسانی اورشعور قدسئی نبوتی میں فرق کا اندازہ لگا ئے پس ماننا پڑے گا کہ ان کا شعور اپنے مقام پر اگر پھیلے تو انسان کے مقابلہ میں ان کی علمی وسعتوں کا کیا مقام ہوگا انسان یہی سمجھے گاکہ ان کے پاس علوم غیبیہ کے ذخائر موجود ہیں جو میرے تصور سے بالاتر ہیں ۔ 

انبیاء میں بھی اپنے مقام پر فرق موجود ہے کوئی نبی ایک قوم کےلئے کوئی قبیلہ کے لئے بعض صرف کنبہ والوں کےلئے بعض تھوڑے عرصہ کےلئے اوربعض زیادہ مدت کےلئے بہرکیف ہر ایک کی پوزیشن الگ الگ ہے بعض صرف نبی ہیں وربعض نبی بھی ہیں اوررسول بھی ان میں سے تھوڑے اولوالعزم ہیں اورزیادہ غیر اولوالعزم پس جس نبی کا دائرہ نبوت جس حد تک ہے وہ نبی اس حدتک اپنی تمام امت کے افراد کے مقابلہ میں شعور کلی کا حامل ہوتا ہے اورامت کےافراد کا شعور مجموعی اسنبی کے شعور قدسی کے مقابلہ میں سچ ہوتا ہے اورحضرت رسالتماب صلی اللہ علیہ والہ چونکہ عالمی رسول ہیں لہذاان کا روح قدسی نبوتی اپنے قدسی شعور کے لحاظ سے عالمین پر حاوی ہونا چاہیے اورتمام موجودات خواہ انسان ہوں یاجن وملک اول خلقت سے لے کر اخر خلقت تک ان کے انفرادی واجتماعی شعور کے مقابلہ میں ان کا شعور قدسی اوران کے علوم ومعارف محیط حیثیت کے حامل ہونگے اوران کے پھیلاو کی حدود وامکانی کمالات کے اخری نقطہ تک ہوں گی جن کا تصور تک عام انسانی عقول نہیں کرسکتے پس ان کی علمی وسعتوں کا احاطہ سوائے ذات واجب الوجود کے اورکسی کےبس کا روگ نہیں لہذا عام انسانی شعور کے مقابلہ میں چونکہ ان کاقدسینبوتی شعور ہمہ گیر ہے جس کی بناءپر عام انسان اسے علوم غیبیہ کاعالم کہہ سکتا ہے جس طرح عام حیوان کے مقابہ میں انسان عالم الغیب اورروح نباتاتی کے مقابلہ میں عام حیوان ااوراکات غیبیہ کے حامل ہیں ۔ 

ماتحت کےلئے جو مسائل لاخیل ہوا کرتے ہیں وہ مافوق کےلئے اپنے ذاتی جوہر کے لحاظ سے درجہ اہمیت سے ساقط ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کے وجود کے لاوازم ہوتے ہیں مثلا نبات کے لئے شعور حیوانی کے اوراکات اگرچہ ایک عقدہ لایخل ہیں لیکن وہ روح حیوانی کےلئے جزو زندگی کی حیثیت سے ہیں جس کی اہمیت ان کےدرجہ اعتبار سے ساقط ہے چہ جائیکہ کہ ان کا مافوق ان کی اہمیت سے انکار کرے اوراسی طرح روح حیوانی کے لئے وہ غیر ممکن انکار ومسائل جن پر انسان حاوی ہے وہ حیوانی شعور سے بالاتر ہیں لیکن وہ عقول انسانیہ کی ذاتی استعداد کے نتائج ہیں جو نہ ان کے لئے چنداں اہم اورنہ معرض تعجب ہیں البتہ جن نئی ایجادات پر انسان محو حیرت ہو کرسنگشت بدنداں نظر اتا ہے وہ صرف اس لئے کہعقول انسانیہ نے اس طرف اس سے پہلے اقدام نہین کیا تھا یہی وجہ ہے کہ کل کی ایجاد اج باعث تعجب نہیں کیونکہ ذہن اس سے مانوس ہوچکا ہے اوراسے اپنے احاطہ قدرت میں داخل سمجھ چکا ہے حالانکہ کل وہ بھی تعجب کاباعث تھی پرسوں کے مقابلہ میں وعی ہذالقیاس ہر ائندہ کی ایجاد گزشتہ کمالات کو عادی کرتی ہوئی چلی جارہی ہے اورانسان اسے شعور انسانی کا عام کرشمہ سمجھتا جارہاہے اب جہاں یہ انسانیکمال اخری حد کو پہنچے گا وہاں سے نبوتیکمال کی حدود شروع ہوں گی پس جس مسئلہ کو انسان لایخل کہے گا اورعام عقول سے اس کی فتح ماممکن ہوگی وہروحنبوتی کے شعور قدسی کےلئے اپنی خداداد استعداد کے ماتحت اس کاعام فعل ہوگا جسے انسان غیب سے تعبیر کرے گا لیکن ذاب اقدس الہیہ جوہر شے پر محیط ہے اس کے سامنے روح نبوتی اوراس کے شعور قدسی کی تمام وسعتیں اسی طرح ہیچ ہیں جس طرح نبی کےلئے عام انسانی کمال اورانسان کےلئے عام حیوانیکمال بلکہ مخلوق اورخالق کے درمیان کوئینسبت قائم ہوہی نہیں سکتی ۔ 

اباسانی سے سمجھ میں اسکے گا کہ خداکسی کو غیب پر مطلع نہین فرماتا مگر جس کو منتخب کرے اپنے رسولوں میں سے یعنی ان کو ان غیبی چیزوں پر اطلاع دیتا ہے جوعام انسانوں کےافہام سے بالاتر ہوں اوروہ غیوب ہیں جو روح نبوتی کے حدود کے اندر ہیں اورشعور انسانیکی حدود سے باہر اورجس مقام پر فرمایا کہ سوائے میرے اورکوئی غیب نہین جانتا بلکہ علم غیب صرف میرا ہی خاصہ ہے اس سے مراد وہ غیوب ہیں جو شعور نبوتی کی حدود سے بالاتر اورذاب اقدس الہیہ کی شایان شان ہیں اوروہ ہر شے پر محیط ہے اوراس کی وسعتیں غیر محدود ہیں اس کااحاطہ نہ انسان کرسکتا ہے نہ جن وملک اورنہ نبی ومرسل بلکہ کسی سے اس کے تصور کا بھی امکان نہی پس انسان اپنی نار ساعقل کے فیصلہ سے کہہ بیٹھتا ہے کہ نبی کلی غیب کا علم رکھتا ہے ورنہ علوم الہیہ کے مقابلہ میں ان کےعلوم ایک فزوی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے علوم کو اس ذاب واجب ولوجود کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں دی جاسکتی۔ 

دور حاضر میں حضرت رسالتماب کے علم کلی وجزوی کا مسئلہ عام ہے جس کو حقیقت ناشناس لوگوں نے اچھال رکھا ہے اوراپنے تئیں عالم کہلانے والوں نے اسی میں اپنا علمیکمال سمجھاہے تاکہ عوام سے داد وتحسین حاصل کر کے اپنے اقتدار ناپائیدار کو فروغ دیں حالانکہ ایسے لوگ علوم حقیقیہ اورمعارف ربانیہ سے کوسوں دور ہوتے ہیں اوربڑی دریدہ دہنی سے عام جایل طبقہ کو جن کا جہل جہل بسیط ہوتا ہے عوام کالانعام سے تعبیر کرتے ہیں اوراپنے جہل مرکب کو کلاءودستار یاجبہ وقباکے نیچے مخفی کرکے عالم بلکہ علامہ کہلواتے پھرتے ہیں حالنکہ کالانعام کی لفظ جس طرح ان کو زیب دیتی ہے وہانہی کا حصہ ہے

میں نے اسمسئلہ کو اپنی حد تک اسان کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کاماحصل یہ ہے کہ نبی کے علوم ہماری نار ساعقول کے مقابلہ میں کلی حیثیت رکھتے ہیں عام انسانیعقول نہ ان کو سمجھ سکتے ہیں اورنہ ان کی حدود کا تصور کرسکتے ہیں لیکن خداوند کریم کے محیط علم کے مقابلہ میں ان کی حیثیت بالکل جزوی ہے اب خداہی جانتا ہے کہ اس نے ان کو کسقدر دیا اورکیونکر دیا اوراس کا فیصلہ ہماری عقول سے بالاتر ہے ہمارا کام ہے ان پر ایمان لانا تسلیم کرنا اوراطاعت کرنا۔ 

اورنہ خیال کریں وہ جو بخل کرتے ہیں ساتھ اس کے جودیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے کہ وہ اس کا انجام اچھا ہے ان کے لئے بلکہ وہ بد ہے ان کےلئے عنقریب طوق پہنایا جائے گا ان کو اس کا جس کا انھوں نے بخل کیا بروز قیامت اللہ کے لئے ہے میراث اسمانوں اورزمین کی اوراللہ ساتھ اس کے جو تم کرتے ہواگاہ ہے ع۹

Post a Comment