Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

ayatul kursi pdf read online urdu tarjama tafseer audio | آیت الکرسی


Ayat Kursi PDF | آیة الکرسی

ayatul kursi pdf read online urdu tarjama tafseer audio | آیت الکرسی
Discover Ayat al-Kursi: A powerful Quranic verse encompassing divine protection and wisdom. Unveil its profound meaning! ✨ #AyatAlKursi #Quran

Ayat Kursi Arabic Text | آیة الکرسی (عربی)

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـٴُـوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(255) لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّۚ-فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىۗ-لَا انْفِصَامَ لَهَاؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(256) اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـٴُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ- یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(257)

Ayat Kursi Urdu Text | آیة الکرسی (اردو)

 اللہ کہ اس کے بغیر کوئی بھی مستحق عبادت نہیں جو حی و قیوم ہے نہ اس پر غلبہ کرتی ہے اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہی ہے تمام وہ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے کون (جرات کر سکتا) ہے کہ سفارش کرے (کسی کی) اس کے سامنے بجز اس کے اذن کے وہ جانتا ہے وہ واقعات جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو ان کے بعد آئیں گے اور وہ نہیں احاطہ کر سکتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے مگر جس کو وہ چاہے وسیع ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں سے اور نہیں دشوار اس پر ان دونوں کی حفاظت اور وہ تمام (صفات نقص سے) بلند (کبریائی میں) صاحب عظمت ہے(255) نہیں زبر دستی دین میں تحقیق ظاہر ہو چکی ہے ہدایت گمراہی سے پس جو کفر کرے شیطان کا اور ایمان لائے اللہ کے ساتھ تو گویا اس نے پکڑا دستاویز محکم کو جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور خدا سننے جاننے والا ہے(256) اللہ ولی ہے ایمان والوں کا کہ ان کو نکالتا ہے (کفرکی) تاریکیوں میں سے طرف نور (ہدایت) کے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کے اولیا شیطان ہےں کہ ان کو نکالتے ہیں نور (ہدایت) سے طرف (کفر کی) تاریکیوں کے ایسے لوگ جہنم میں جانے والے ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے(257)

Ayat Kursi Audio | آیة الکرسی (صوتی)





آیة الکرسی کی تفسیر

وَ لا شَفَاعَة: اس مقام پر شفاعت کی ظاہراً نفی کی گئی ہے اور چونکہ شفاعت کا ہونا احادیث میں تو اتر سے ثابت ہے بلکہ قرآن میں بھی دوسرے مقام پر شفاعت ثابت ہے، چنانچہ آیت الکرسی میں اِلَّا بِاِذْنِہ کا کلمہ شاہد ہے کہ جن کو اِذن ہو گا وہ شفاعت کریں گے اور اس سے مراد انبیا و آئمہ ہیں جو گنہگارانِ امت کی شفاعت کریں گے بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ بعض نیک مومن بھی کسی حد تک شفاعت کر سکیں گے لہذا اس مقام پر شفاعت کی نفی غیر مومن کےلئے ہے۔
آیة الکرسی کی فضیت
مجمع البیان میں کتب عامہ سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتا ہے جناب رسول خدا نے فرما ےا جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد آیۃالکرسی پڑھے گاتو بوقت موت اس کی قبض روح خود خدا وندعالم اپنے ےد قدرت سے فرمائے گا اور اس کا ثواب انبےا کے ہمراہ جہاد کر کے شہےد ہونے والوں کے برابر ہو گا اور حضرت امےرالمومےنن ؑ سے مروی ہے کہ حضور نے بر سر منبر ارشاد فرماےا کہ جو شخص ہر نماز فرےضہ کے بعد آےةُا لکرسی پڑھتا رہے تو اس کے اور جنت کے درمےان صرف موت ہی کا فرق رہ جاتا ہے اوراس کو ہمےشہ نہےں پڑھتے مگر صدےق ےا عابد اور جو شخص اس کو سونے سے پہلے تلاوت کر لے تو خدا اس کو بمعہ ہمساےوں کے امن مےں رکھے گا، اےک اور حدےث مےں حضور نے فرماےا کہ تمام کلاموں کا سردار قرآن ہے اور تمام قرآن مےں سردار سورہ بقرہ ہے اور تمام سورہ بقرہ مےں سردار آےةُالکرسی ہے فرماےااے علی ؑ! اس مےں پچاس لفظ ہےں اور ہر لفظ مےں پچاس برکتےں ہےں۔
اور حضرت امام محمدباقرؑ سے مروی ہے کہ جو شخص اےک مر تبہ آےةُالکرسی پڑھے تو خدا وند عالم اس سے دنیا و آخرت کی ایک ایک ہزار سختیاں دور فرماتا ہے کہ کم از کم سختی دنیا کی فقر اور کم از کم سختی آخرت کی عذاب قبر ہے اور ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ ہر شئے کی ایک چو ٹی ہو تی ہے اور قرآن مجید کی چوٹی آیةُالکرسی ہے مومنوں کے قبرستان میں آیةُالکرسی پڑھ کر ثواب ان کو بخشنا بہت باعث ثواب ہے۔
خواص: (از عمدة البیان )
1 ہر نماز فریضہ کے بعد پڑھنا رزق کی زیادتی کا موجب ہے
2 صبح و شام پڑھنا چور ڈاکو آتش زنی وغیرہ سے حفاظت کا موجب ہے
3 روزمرہ ہر فریضة نماز کے بعد پڑھنا سانپ و بچھو کا تعویز ہے بلکہ جن و انس اس کو ضرر نہ پہنچا سکیں گے
4 اسے لکھ کر کھیت میں دفن کیا جائے تو چوری اور نقصان سے محفوظ رہے گا اور باعث برکت ہے
5 اگر لکھ کر دوکان میں رکھی جائے تو بہت باعث برکت ہے
6 گھر میں رکھنا چو ری سے امان کا باعث ہے اگر مرنے سے پہلے پڑھے تو بہشت میں اپنی جگہ دیکھے گا
7 سوتے وقت ہر روز آیةُالکرسی کا پڑھنا فالج سے حفاظت کا باعث ہے
سِنَة وَّلانَوْم برہان میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی قوم نے حضرت موسیٰؑ سے سوال کیا کہ تیرا خدا جاگتا ہے یا سوتا ہے؟ تو حضرت موسیٰؑ نے اپنی منا جات میں بارگاہِ خدا میں عرض پیش کی، پس ارشاد ہوا کہ تو ایک شب و روز خواب نہ کر اس کے بعد ایک فرشتہ دو شیشیاں لے کر نازل ہو ا، اور اللہ تعالیٰ کا حکم سنایا کہ ان دونوں کو ہا تھوں میں رکھ اور ان کی حفاظت کر اور نیند نہ کرنا لیکن چونکہ ان پر پورے شب وروز کی بیداری کی وجہ سے نیند کا غلبہ تھا ہرچند انہوں نے نیند کے دفع کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار نیند غالب آئی اور ہاتھ پر ہاتھ جو لگا تو دونوںشیشیاں چور ہو گئیں پس جبرائیل نازل ہوا اور کہا کہ خدا فرماتا ہے: اے موسیٰؑ! تو خواب میں دو شیشیوں کو محفوظ نہیں کر سکا! اگر میں سو جاﺅں تو زمین و آسمان کا نظام کون محفوظ کرے گا؟ (عمدة البیان )
یہودیوں نے یہی سوال رسول خدا سے بھی کیا تو آیة الکرسی نازل ہوئی پھر پوچھا کہ کیا جنت والے سوئیں گے؟ تو فرمایا کہ نیند موت کی بہن ہے وہاں نہ جنتی سوئیں گے اور نہ دوزخی سوئیں گے (البرہان ج۲ص۲۳۳)
وَسِعَ کُرْسِیُّہ صادقین علیہم السلام سے مروی ہے کہ کرسی سے مراد اس مقام پر علم ہے یعنی خدا کا علم آسمان اور زمین پر حاوی ہے بعض نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد عرش ہے اور بعض نے قدرت ملک اور سلطنت اس سے مراد لی ہے نیز منقول ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی حیثیت کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جس طرح ایک انگوٹھی ایک وسیع جنگل میں اور کرسی کی نسبت عرش سے بھی ایسی ہے جس طرح ایک انگوٹھی یا چھلّا ایک وسیع جنگل میں پڑا ہو۔
علم ہیئت والوں کے نزدیک کرسی سات آسمانوں کے اوپر محیط ہے اور وہ اس کو فلکُ البروج کہتے ہیں اوران کے نزدیک تمام ستارے اور بروج وغیرہ اسی میں ہیں۔
وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ: روایت میں ہے کہ خداووند کریم نے اپنے ننانوے ناموں میں سب سے پہلے اپنی ذاتِ مقدس کےلئے اَلْعَلِیُّ الْعَظِیْم کو منتخب فرمایا۔

لا اِکْرَاہَ: اس کے شان نزول کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ ایک انصاری ایک حبشی غلام (صبیح) کو اسلام لانے پر مجبور کرتا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی ۔
اور بعض نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ شام سے کچھ تاجر وارد مدینہ ہوئے انہوں نے حصین انصاری کے دو بیٹوں کو نصرانیت کی دعوت دی پس وہ دونوں نصرانی ہو گئے اور ان کے ہمراہ شام چلے گئے اس پر حصین نے جناب رسول خدا کو خبر دی تو یہ آیت نازل ہوئی۔
بعض لوگ اس کو آیت جہاد سے منسوخ جانتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ حکم صرف ذمی کافروں کےلئے مخصوص ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اعمالِ شرعیہ کی بجا آوری میں انسان مختار کل ہے اور اس پر اللہ کی طرف سے کوئی جبر نہیں کیونکہ نیکی و بدی ہر دو کا راستہ بتایا جا چکا ہے اب انسان کی اپنی مرضی نیکی کی طرف آئے یا برائی کی طرف جائے، گو یا یہ آیت اس عقیدہ کو چیلنج کر رہی ہے کہ نیکی و بدی سب اللہ ہی کرواتا ہے اور انسان اپنے افعال میں مجبور ہے حَاشَا وَ کَلَّا ہم تفسیر کی جلد ۲ میں پہلے رکوع کے تحت مسئلہ جبر کو بیان کر چکے ہیں۔
علمی نکتہ
چونکہ دین کی اصل معرفت و اعتقادات ہے، اور اعمال و عباداتِ مالیہ و بدنیہ اس کی فروعات ہیں اور اس میں شک نہیں کہ اعتقاد کیفیت قلبیہ ہے جس میں جبر و اکراہ موثر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کےلئے علیحدہ علل و اسباب ہیں جو اس کے حصول کا پیش خیمہ ہوا کرتے ہیں۔
پس
لا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا جملہ ترکیب نحوی کے لحاظ سے یا تو:
جملہ خبر یہ ہے تو مقصد یہ ہے کہ دین ایک ایسی چیز ہے جس میں جبر و اکراہ قطعاً داخل نہیں ہوا کرتا اور یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے
اگر اس کو جملہ انشائیہ قرار دیا جائے تو دین کے قبول کرنے کےلئے جبر و تشدد کو منع کیا گیا ہے کیونکہ جبر اعمالِ ظاہریہ و افعال بدنیہ سے تعلق رکھتا ہے قلبی میلان اور اعتقادی رجحان میں اس کیا کوئی اثر نہیں ہوا کرتا لہذا جبر کا استعمال بےہودہ اور بے معنی ہے
قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْد: یہ نفی اکراہ کی تعلیل ہے کہ کوئی حاکم کسی امر ضروری میں تشدد و جبر کو اس وقت استعمال کرتا ہے جب ماتحت میں فعل مامور بہ کی خوبی و بدی کے سمجھنے کی اہلیت نہ ہو جس کی وجہ سے وہ فعل مامور کی مصالح سے مطلع نہ ہو سکے یا ماتحت میں فعل مامور بہ کی خوبی و بدی کے سمجھے کی اہلیت ہو لیکن بعض مصلحتوں کی وجہ سے اس کو سمجھانا خلاف مقصود ہو تو ان حالات میں امور ضروریہ کی بجا آوری میں تشدد سے کام لیا جاتا ہے اور مامورین کےلئے سوائے تقلیدی رویہ کے اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا، لیکن دین اسلام کی اچھائی اور اس کے ردّ کرنے کی برائی کو سمجھنے کےلئے نہ انسانوں میں فہمی معذوری ہے کیونکہ اس کے اصول فطری اور مطابق عقل ہیں اور نہ حاکم مطلق نے ان کے سمجھانے میں کوئی کمی کی ہے بلکہ وحی اور نبوت کے ذریعے سے ہدایت اور گمراہی کے ہر دو طریق پوری طرح واضح کر دئیے گئے ہیں پس اس وضاحت کے بعد جبر و اکراہ کا سوال باقی ہی نہیں رہتا، بلکہ صاحب عقل و فہم انسان نفع و نقصان کے سمجھنے کے بعد اپنے اختیار و ترک میں مختار ہے لہذا اس میں جبرکی کوئی ضرورت ہی نہیں۔
نیز اس بیان سے یہ امر بھی پوری طرح واضح ہو گیا کہ دین اسلام زورِ تلوار سے ہر گز نہیں پھیلا بلکہ اس کے مشن کی صداقت اور اس کے اصول کی مبنی بر حقیقت جاذبیت نے چہار دانگ میں اس کی مقولیت کا ڈنکا بجایا اور اس کے فطری و طبعی ناقابل تردید براہین نے فضائے عالم میں اس کا جھنڈا لہرایا ہے پس روز روشن کی طرح اس امر کی بھی وضاحت ہو گئی کہ یہ آیت تا قیام قیامت منسوخ نہیں ہو سکتی کیونکہ کسی حکم کی منسوخی اس وقت ہو سکتی ہے جبکہ پہلے اس کی علت کو منسوخ کیا جائے اور یہاں عدم اکراہ کی علت ہے ہدایات و گمراہی کے راستوں کی وضاحت اور یہ علت تا قیامت قابل نسخ نہیں لہذا اس کا معلول حکم یعنی جبر و تشدد کے استعمال کی منع بھی ہر گزنسخ پذیر نہیں ہو سکتا، پس جن لوگوں نے اس حکم کو جہاد والی آیت سے منسوخ قرا دیا ہے یہ ان کا اشتباہ ہے اور اسلام کی جملہ لڑائیاں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی خاطر نہیں تھیں بلکہ جو لوگ انسانیت کے اس فطری حق پر پردہ ڈالنے اور شمع توحید کو بجھانے کے درپے تھے اسلام کی لڑائیاں بحکم جہاد اس نفیس ترین متاعِ فطرت یعنی کلمہ توحید کی حفاظت کےلئے صرف دفاعی حیثیت سے تھیں نہ ان میں توسیع دائرہ اسلام کی ہوس کار فرما تھی اور نہ ملک گیری کا جذبہ موجب تحریک تھا، کیونکہ ملک گیری کا جذبہ تبلیغ اسلام سے بالکل منافات رکھتا ہے اور جبرو تشدد اور فاتحانہ انداز دائرہ اسلام کی توسیع میں فائدہ بخش نہیں، کیونکہ اصل دین ہے معرفت اور وہ اکراہ سے حاصل کی نہیں جا سکتی۔
اَلطَّاغُوْت: مراد شیطان بت یا سرکش، خواہ جن ہو یا انسان ، یا کاہن یا جادو گر (باقوال مفسرین) بروایت ابو بصیر حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ قائم آلِ محمد ؑ سے پہلے جو جھنڈا بلند ہو پس سمجھ لو کہ اس کا اٹھانے والا طاغوت ہے تفسیر قمی سے نقل کیا گیا ہے کہ طاغوت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے آل محمد کے حقوق کو غصب کیا۔

اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی: اس بارے میں چند روایات مذکور ہیں:
(۱) برہان میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ جو شخص اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی سے تمسک پکڑنا چاہے جو کبھی نہ ٹوٹے گا تو اس کو چاہیے کہ میرے بھائی اور وصی حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت سے تمسک پکڑے کیونکہ اس کا محب و موالی ہلاک نہ ہوگا اور اس کا منکر و دشمن نجات نہ پائے گا
(۲) حذیفہ بن اُسید سے مروی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا اے حذیفہ ! میرے بعد تم پر اللہ کی حجت علی بن ابیطالب ؑ ہے اس کا کفر اللہ کا کفر اس کا شرک اللہ کا شرک اس میں شک اللہ میں شکاس سے کنارہ اللہ سے کنارہ اس کا انکار اللہ کا انکار اور اس پر ایمان اللہ پر ایمان ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کا بھائی ان کا وصی ان کی امت کا امام اور اللہ کی مضبوط رسی اور
اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی ہے جوٹوٹنے والا نہیں، اور اس (علی ؑ) کے متعلق دو قسم کے انسان ہلاک ہوں گےایک غالی (جو ان کو اپنی حد سے بڑھا کر خدایا خدا کی صفات میں شریک کہیں گے) دوسرے مقصر (جو ان کو اپنے حقوق سے پیچھے ہٹاکر دوسروں کو ان کی جگہ دیں گے) اے حذیفہ علی ؑ سے جدا نہ ہونا ورنہ تو مجھ سے جدا ہو جائے گا اور علی ؑ کی مخالفت نہ کرنا ورنہ تو میرا مخالف ہو گا کیونکہ علی ؑ مجھ سے ہے اور میں علی ؑ سے ہوں جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اس کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا
(۳) اسناد سابق سے جناب رسالتمآب نے فرمایا حسین ؑ کی اولاد سے ہونے والے امام کی اطاعت جس نے کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی یہی عُرْوَةُ الْوُثْقٰی ہیں اور یہی اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں
(۴) نیز جناب رسول خدا سے منقول ہے کہ جو شخص عُرْوَةُ الْوُثْقٰی ( دستاویز محکم ) سے تمسک پکڑنا چاہے پس وہ علی ؑ اور اس کی اہل بیت کی محبت کو اختیار کرے
(۵) جناب امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ آپ ؑ نے ایک اپنے لمبے خط میں ارشاد فرمایا کہ رسول خدا اپنی امت میں ایک کتابِ خدا اور دوسرے اپنا وصی علی ؑ بن ابی طالب چھوڑ گئے جو امیرا لمومنین امام المتین حبل اللہ المتین عروة الوثقٰی اور عہد موکد ہیں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مصدق ہے
(۶) بطریق مخالفین عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے منقول ہے کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی ؑ کو فرمایا اَنْتَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی (تو خدا کی محکم دستاویز ہے)
(۷) امام علی رضا ؑ سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآ ب نے فرمایا میرے بعد تاریک فتنہ ہو گا نجات وہی پائے گا جو عروة الوثقیٰ سے تمسک پکڑے گا، جب اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ کون تھے؟ تو فرمایا کہ سید الوصین کی ولایت پھر پوچھا گیا کہ سید الوصییّن کون ہے؟ تو فرمایا امیر المومنین پھر پوچھا گیا کہ وہ کون ہو گا؟ تو فرمایا کہ جو مسلمانوں کا حاکم اور میرے بعد امام ہو گا پھر سوال ہوا کہ آپ کے بعد امام اور مسلمانوں کا حاکم کون ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرا بھائی علی ؑ بن ابی طالب ہے
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تفسیر برہان میں کافی اور دیگر کتب امامیہ سے بروایت عبد اللہ بن ابی یعفور منقول ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں لوگوں سے ملتا جلتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو آپ ؑ سے تولّا نہیں رکھتے اور فلاں فلاں سے دوستی رکھتے ہیں ان میں امانت سچائی اور وفا پائی جاتی ہے اور ایک قوم جو آپ ؑ سے تولّا رکھتی ہے ان میں وہ امانت وفا اور سچائی نہیں پائی جاتی؟ راوی کہتا ہے کہ یہ سنتے ہی امام ؑ سیدھے ہو بیٹھے اور غصے میں میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جو شخص ظالم امام ؑ کی ولایت کا قائل ہو جو خدا کی طرف سے نہیں اس کا کوئی دین نہیں اور جو شخص امامِ عادل منصوص من اللہ کی ولایت کا قائل ہو اس پر کوئی عتاب نہیں میں نے عرض کیا کہ اُن کا کوئی دین نہیں اور اِن پر کوئی عتاب نہیں؟ تو فرمایا ہاں ! اُن کا کوئی دین نہیں اور اِن پر کوئی عتاب نہیں، پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا فرماتا ہے
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّوْرِ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ن کو گناہ کی تاریکیوں سے نکال کر توبہ اور بخشش کی نورانیت کی طرف منتقل کر دیتاہے کیونکہ وہ امام عادل سے تولّا رکھتے ہیں جو کہ منصوص من اللہ تھا اور خدا فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِئٰٓھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِنَ النُّوْرِ اِلٰی الظُّلُمٰتِ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ نور اسلام میں تھے جب انہوں نے امام ظالم کو امام مان لیا جو اللہ کی طرف سے نہ تھا کہ وہ ان کی ولایت کی وجہ سے نور اسلام سے نکل کر کفر کی تاریکی میں چلے گئے پس خدا نے کفار کے ساتھ ان کے لئے جہنم واجب کر دیا پس وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
ابن ابی یعفور کہتا ہے کہ میں نے عرض کی کیا
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے عام کافر مراد نہیں ہیں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ کافروں کے پاس پہلے نور ہی کون سا تھا جس سے وہ نکالے گئے؟ بلکہ اس سے وہی معنی مراد ہے جو میں نے بیان کیا ۔
بروایت ابن شہر آشوب امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ آیت مجیدہ میں نور سے مراد ولایت علی ؑ ابن ابی طالب ہے اور ظلمات سے مراد دشمنانِ علی ؑ کی ولایت ہے اور طاغوت سے مراد علی ؑ بن ابی طالب کی ولایت کے منکرین اور ان کے دوست ہیں۔
ایک روایت میں امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ کے دشمن ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے خواہ اپنے نزدیک انتہائی متقی زاہد اور عبادت گزار ہی کیوں نہ ہوں۔
اقول: اس مطلب کو استدلالی رنگ میں ہم نے تفسیر ہذا کی جلد اوّل یعنی مقدمہ تفسیر میں مفصل بیان کیا ہے ، عدل احباط شفاعت اور ولایت آلِ محمد اور ضرورتِ امام کے عناوین ملاحظہ فرمائیں، نیز اسی جلد میں اسی پارہ کے رکوع ۰۱ کی تفسیر کے ذیل میں
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلام کے تحت بھی کسی قدر بیان کیا گیا ہے۔
مسئلہ یہ دو آیتیں ویسے آیة الکرسی سے الگ ہیں لیکن بعض نمازیں جن میں آیة الکرسی پڑھی جاتی ہے مثلاً نماز و حشت یا نماز غدیر وغیرہ تو وہاں آیة الکرسی سے مراد یہ تینوں آیتیں ہوا کرتی ہیں یعنی ان نمازوں میں ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْن تک پڑھنا چاہیے جس طرح کہ کتب فقہیّہ میں مذکور ہے ۔

Post a Comment