Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

مذہب جمہور کی تشکیل و تنظیم | mazhab jamhor ki tashkil w tnzeem | khilafat o malookiat

مذہب جمہور کی تشکیل و تنظیم | mazhab jamhor ki tashkil w tnzeem | khilafat o malookiat

مذہب جمہور کی تشکیل و تنظیم | mazhab jamhor ki tashkil w tnzeem | khilafat o malookiat

حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام کے زمانہ سے پہلے مذہب جمہور اہل سنت کا کوئی ضابطہ نہ تھا اور نہ اصول و فروع میں ان کا کوئی خاص مسلک تھا بلکہ اقتدار کے ساتھ ساتھ مذہب چلتا رہا اور سیاسی قیادت ہی دینی قیادت پر حکمران رہی۔ اگرچہ واقعہ کربلا واقعہ حرہ اور واقعہ توہین بیت اللہ نے امت اسلامیہ کو بار بار جگایا اور آل محمدﷺ کی صداقت علم فضل زہد و تقوٰے نے پہری امت کو اپنی قیادت دینیہ کی طرف متوجہ کیا لیکن ساٹھ سال یا بقولے ایک ہزار ماہ کے طویل عروہ میں بنی امیہ کے سرکاری احکام اور متشددانہ نظام کے ماتحت حضرت علی ان کی اولاد اور ان کے شیعان پر سب وشتم تنقیص وتوہین اور تذلیل و تحقیر بلکہ تکفیر کے مسلسل رویےنے عامہ المسلمین کے دل آلِ محمد ﷺ سے متنفر کر دیئے تھے۔ عمربن عبدالعزیز کے امتناعی حکم سے اتناہی غنیمت ہے کہ کسی حد تک شیعان علی پر کئے جانے والے مظالم میں تخفیف ہوگئی اور لوگ حضرت علی اور ان کی اولاد کا کا نام سن کر برداشت کرنے لگ گئے اور رفتہ رفتہ ان کے محامد ومناقب بھی زبانوں پر آنے شروع ہوگئے بہرحال بنی امیہ کے دور اقتدار کے بعد حضرت علی یا ان کی اولاد امجاد کے متعلق یا تو تصور ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ ان ہی کو دینی قیادت کا سربراہ تسلیم کیا جائے آئمہ شیعہ کے ساتھ اتنی نرمی ہوئی کہ علانیہ ان پر سب و شتم بنکہوگیا لیکن شیعانِ علی ان کی دینی قیادت کے قائل ہونے کی وجہ سے ویسے کے ویسے معقوب رہے حکومت کی نظروں میں بھی اور جمہور اہل اسلام کی نگاہوں میں بھی۔ بنی امیہ کے مسلسل اسلام کش رویے کے پیش نظر جمہور اہل اسلام میں یہ احساس ضرور پیدا ہوا کہ دینی قیادت کا راستہ سیاسی قیادت سے الگ ہے لیکن اب ان کی حالت ایک طویل وعریض جنگل میں راہ گم گشتہ مسافرکی سی ہوگئی کیونکہ ایک طرف اقتدار کی پوجا کے جمہوری تقلیدی رویہ کے ماتحت وہ آل محمد ﷺ کی دینی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور دوسری طرف اقتدار سے ہر وقت اسلام دشمنی کا دھواں بلند ہوتا دیکھ گرانہیں دینی قائد کھنا بھی گوارا نہ کرتے تھےپس اس قافلہ کا نہ کوئی سالار تھا نہ پیش روجس کا جس طرف کومنہ آ یا روانہ ہوا اور چند آدمی اپنے پیچھے لگا لئے اور امت اسلامیہ ایک شتر بے بہار کی طرح یا راہ گم کرد ہ مسافر کی طرح اپنی صحیح منزل کے رخ سے بے خبر ایک عرصہ تک چلتی رہی او ر مودو دی صاحب نے امت کی اس بے کسی اور بے بسی کو اپنے اورسیانہ رنگ میں اس طرح بیان کیا ہے ۔

دوسرا حصہ دینی قیادت کا تھا جسے بقا یائے صحابہ و تابعین و تبع تابعین – فقهاء و محدثین اور صلحائے امت نے آگے بڑھ کر سنبھال لیا اور امت نے اپنے دین کے معاملہ میں پورے اطمینان کے ساتھ ان کی امامت تسلیم کر لی یہ قیادت اگرچہ منعظم نہ تھی اگرچہ اس کا کوئی ایک امام نہ تھا جسے سب نے اپنا مرشد مان لیا ہو۔ اگر یہ اس کی کوئی بااختیار کونسل نہ تھی کہ جو دینی مسائل پیدا ہوں ان کے بارے میں بروقت وہ ایک فیصلہ صادر کر دے کہ وہ پوری مملکت میں مان لیا جائے یہ سب لوگ انفرادی حیثیت میں کام کر رہے تھے۔الخ خلافت و ملوکیت سنہ 202، 203 آگے چل کر رقمطراز ہیں:

امام ابوحنیفہ کے وقت تک کسی نے ان اختلافی مسائل میں جمہور اہل اسلام کے مسلک کی باقاعدہ توضیح نہیں کی تھی جو ایک پورے نظام فکر کی شکل میں مرتب ہوتی بلکہ مختلف فقہاء و محدثین مختلف مواقع پر اپنے اقوال ، فتاویٰ ، روایات یا طرز عمل سے منتشر طور پر اس کے کسی پہلو کو واضح کرتے رہتے تھے ۔سنہ 220

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ۔

امام ابو حنیفہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے الفقہ الاکبر لکھ کر ان مذہبی فرقوں کے مقابل میں عقیدہ اہل سنت والجماعت کو ثبت کیا ۔ سنہ 230

اس کے مقابلہ میں شیعان علی کا مسلک مسلسل ایک دینی قیادت کے ماتحت رہاجس میں کبھی کوئی رخنہ نہیں آیا۔اابو حنیفہ سنہ 80 ھ میں پیدا ہوا۔ اس وقت شیعہ مسلک میں امام وقت، حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام تھے اوران کی مذہبی قیادت ان کے سپرد تھی۔ ہر پیش آمدہ مسئلہ میں وہ ان کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ سنہ 95 ھ میں آپ کی شہادت ہوئی تو امام محمد باقر علیہ السلام شیعان علی کے مسلک کی رو سے قیادت دینیہ کے سربراہ تھے اور بقول صاحب تذکرة الخواص ابوحنیفہ نے آپ سے بھی حدیث کا درس لیا تھا۔ آپ کے حلقہ درس میں ہزاروں تشنگان علوم دینیہ اپنی علمی پیاس بجھاتے اور آپ کے علمی بحر ذخار سے کسب فیض کرتے تھے، آپ جب تقریر فرماتے تو علوم ومعارف کا دریائے بے کراں منبع دہان امامت یا سرچشمہ لسانِ ہدایت سے موجزن معلوم ہوتا تھا جمہور اہل اسلام کا بڑے سے بڑا عالم آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آتا تھا۔ آپ کا حوزہ علمیہ وہی مسجد نبوی تھی جہاں سے پیغمبرﷺ کی زبان عحی ترجمان سے صحیح اسلام کی تعبیر وقرآن کی تفسیر منظر عام پر آکر ظلمت کدہ عالم کو بقعہ نور بنانے میں مصروف ہواکرتی تھی۔ حضرت باقر العلوم نے علوم نبویہ اور معارف ربانیہ کی تعلیم و ترویج سے جہاں مسلمانان عالم کو اپنا فیض عام پہنچایا وہاں شیعان آل م حمد ﷺ کو مذہب کے اصول فرع کی کافی تفصیلات سے آگاہ فرمایا۔ ابوحنیفہ کی تشکیل مذہب جمہور کے متعلق مودودی صاحب لکھتے ہیں۔

جس فتنے کے زمانے میں امام نے عقیدہ اہل سنت کی یہ وضاحت پیش کی تھی اس کی تاریخ کو نگاہ میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا جس سے انہوں نے امت کو راہ اعتدال پر قائم رکھنے کی سعی بلیغ فرمائی تھی ۔ اس عقیدے کے معنے یہ تھے کہ امت اس ابتدائی اسلامی معاشرے پر پورا اعتماد رکھتی ہے جو نبی ﷺ نے قائم کیا تھا اس معاشرے کے لوگوں نے جو فیصلے بالاتفاق یا اکثریت کے ساتھ کئے تھے امت ان کو تسلیم کرتی ہے جن اصحاب کوانہوں نے یکے بعد دیگرے خلیفہ منتخب کیا تھا ان کی خلافت کو بھی اور ان کے زمانے کے فیصلوں کو بھی وہ ائینی حیثیت سے درست مانتی ہے اور شریعت کے اس پورے علم کو بھی وہ قبول کرتی ہے جو اس معاشرے کے افرادیعنی صحابہ کرام کے ذریعے سے بعد کی نسلوں کو ملا ہے ۔ یہ عقیدہ اگرچہ امام ابوحنیفہ کا اپنا ایجاد کردہ نہ تھا بلکہ امت کا سواداعظم اس وقت یہی عقیدہ رکھتا تھا مگرامام نے اسے تحریری شکل میں مرتب کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی کیونکہ اس سے عام سلمانوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ متفرق گروہوں کے مقابلہ میں ان کا امتیازی مسلک کیا ہے " سنہ 236۔

Post a Comment